ہماری جمہوری حکومت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اقتدار میں آ نے کے بعد انہیں جمہوریت یاد نہیں رہتی،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی،حکومت پنجاب کی جانب سے بنائے گئے بلدیاتی قوانین میں سیکشن 7 اور 17 باہم متصادم ہیں،حد بندیوں کے مقدمات کی سماعت کے دورا ن ریما رکس ، سندھ اور پنجاب میں اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کے ڈر سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتیں ۔جسٹس خلجی عارف

جمعرات 13 مارچ 2014 08:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13مارچ۔ 2014ء) سپریم کورٹ میں پنجاب اور سندھ میں حد بندیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دئیے کہ ہماری جمہوری حکومت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اقتدار میں آنے والی جماعت اپوزیشن میں جاتے ہی جمہوریت کی بات کرتی ہے اور حکومت میں آنے کے بعد انہیں جمہوریت یاد نہیں رہتی‘ بلدیاتی انتخابات نہ کرواکر صوبائی حکومتیں ”کیک شیئرنگ“ نہیں چاہتیں‘ حکومت پنجاب کی جانب سے بنائے گئے بلدیاتی قوانین میں بادی النظر میں سیکشن 7 اور 17 باہم متصادم ہیں‘ قانون سازوں نے الیکشن کمیشن اور حکومتوں کے درمیان بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے اختیارات کو واضح ہی نہیں کیا جبکہ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا پڑے گا‘ اتنا اہم مقدمہ زیر سماعت ہے اور کسی سیاسی جماعت ک عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت نہیں ہوئی صرف تحریک انصاف نے رجوع کیا ہے وہ بھی بغیر وکیل کے‘ ناجانے کیا لینے آئے ہیں‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت سب کے انتخابی منشور میں بلدیاتی انتخابات کرانا درج ہیں مگر یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں اس پر عمل نہیں کیا جاتا‘ حد بندیوں کا معاملہ ہو یا کوئی اور کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ نہیں ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بلدیاتی قوانین کے حوالے سے ہائیکورٹ کے باہم متصادم فیصلوں کو بھی تسلیم کرلیا ہے‘ ہائیکورٹ جانے کو کوئی تیار نہیں‘ سارا گند اور ملبہ سپریم کورٹ کے حصے میں ڈال کر فیصلہ مانگا جاتا ہے‘ ہم کس کس بات کا فیصلہ کریں۔

(جاری ہے)

یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے گئے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حد بندیوں کے مقدمات کی سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے چوبیس گھنٹوں میں بلدیاتی قوانین کے سیکشن 7 اور 17 باہم متصادم ہونے اور آرٹیکل 222,9 کی خلاف ورزی ہونے بارے اپنا تحریری موقف پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس دوران عدالت میں اکرم شیخ‘ اطہر صدیق اور لطیف کھوسہ سمیت دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کی جماعت اب بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 19 پڑھئیے جس میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر ہے۔ شفاف انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کردار‘ بادی النظر میں انتخابات کے انعقاد میں حد بندیاں پہلا قدم ہیں۔

سیکشن 7 میں حکومت کی جانب سے حد بندیاں کرانا آرٹیکل 222,19 سمیت دیگر آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کیسے یہ اختیارات استعمال کرسکتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ میرا تو کیس ہی یہی ہے۔ سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم نے تو پنجاب حکومت کے حوالے سے ہائیکورٹ کے فیصلے کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی دو فیصلے ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں ان پر انحصار کیا کرنا ہے۔

مائیک تو آگے کردیں الیکشن تو آپ کروا ہی نہیں رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاء افسر ہونے کے حوالے سے آپ کا موقف تو واضح ہونا چاہئے۔ حکومت پنجاب تمامتر اقدامات کرنے کو تیار ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ہمیں پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ لاء افسران نے لگتا ہیکہ دامن جھاڑ کر اپنی جان چھڑالی ہے۔ دن رات سردیاں گرمیاں سب ایک دن سمجھ لی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں 183 ڈال کر اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا ہے۔

پہلے یہ اختیار صوبائی حکومتوں کا اختیار تھا اب حد بندیوں کا اختیار صوبائی حکومتیں کہاں استعمال کررہی ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قانون سازی کرنے والوں سے یہ بات رہ گئی ہے۔ حد بندیوں کا معاملہ تو قومی اسمبلی کے حوالے سے ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے ہی بلدیاتی انتخابات کرانا ہیں تو 1974ء ایکٹ کو ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ اٹھارہویں ترمیم میں ایک خلائی رہ گیا ہے جسے پر نہیں کیا گیا اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ حد بندیاں کون کرائے گا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ سیکشن 7‘ صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے 8 یونین کونسلیں بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن کہا ہے۔ 1974ء کا ایکٹ ہی قابل عمل ہی تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے‘ اگر حد بندیاں الیکشن کمیشن کرتا ہے تو پھر اٹھارہویں ترمیم کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن بارے پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ موجود نہیں ہیں۔

تحریک انصاف نے تحریری دلائل جمع کروائے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ انہیں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مقرر کرتے ہوئے اپنا کونسل مقرر کریں۔ ہر آدمی اس طرح سے تونہیں کرسکتا اس حوالے سے قواعد و ضوابط واضح ہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ اتنا اہم موضوع ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ لگتا ہے انہیں ان معاملات میں جانے کا شوق ہی نہیں اور ضرورت بھی محسوس نہیں کررہے۔

لطیف کھوسہ پی پی کی جانب سے پیش ہوتے رہے اور مختلف نکات پر بات کی۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے ان چیزوں کو چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات بارے سیاسی جماعتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سب کے منشور میں بلدیاتی انتخابات بارے لکھا ہوا ہے مگر کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ پاور شیئرنگ نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاور شیئرنگ دراصل کیک شیئرنگ ہے جو سیاسی جماعتیں نہیں کرنا چاہتیں۔

جسٹس خلجی نے کہا کہ کئی ہفتوں سے بلدیاتی انتخابات بارے سماعت ہورہی ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت آگے نہیں آئی صرف تحریک انصاف سامنے آئی لیکن انہوں نے بھی وکیل مقرر نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے آئینی ذمہ داری کی وجہ سے درخواست دائر کی کیونکہ شفاف انتخابات کرانا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شاباش تو الیکشن کمیشن کیلئے ہے کہ جس نے درخواست دے کر ان حد بندیوں بارے اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ میں بطور سیکرٹری جنرل پیپلزپارٹی پیش ہوسکتا ہوں۔ سندھ میں ہماری پارٹی کی حکومت ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ اگر آپ کی پارٹی قومی پارٹی ہے تو سندھ میں ہی سٹینڈ کیوں نہیں لے رہے پنجاب اور دیگر صوبوں میں بات کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے تو پنجاب میں سٹینڈ لیا ہے۔ ہم آپ کو وقت دے سکتے ہیں اپنی پارٹی کا تحریری جواب دے دیں۔

حد بندیوں بارے آپ کا کیا خیال ہے‘ سندھ میں کب بلدیاتی انتخاب ہوں گے۔ ڈاکٹر شیرافگن سے چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 19 کے تحت الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا اختیار دیتا ہے۔ اگر صوبائی حکومت نے قابل عمل پروویژن نہیں رکھی تو الیکشن کمیشن انتخابات کراسکتے ہیں۔ سیکشن 7 پنجاب حکومت کو حد بندیوں کا اختیار دیتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ سیکشن 7 سیکشن 19 کیساتھ متصادم ہے۔

اگر ہم یہ قرارداد دے دیں تو 1974ء کا ایکٹ استعمال ہوسکتا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن حد بندیوں کا پراسس مکمل کراسکتا ہے۔ ڈاکٹر شیرافگن نے کہا کہ قومی اسمبلی کی حد بندیاں ہم کراسکتے ہیں تو یہ بھی کرسکتے ہیں۔ جمعرات کے روز تک ہمیں بتلادیں کہ آپ دونوں سیکشنوں کو ایک دوسرے کیساتھ متصادم سمجھتے ہیں یا نہیں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ لطیف کھوسہ پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں پی پی کی جانب سے فریق تھے‘ وقت مانگا ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کراسکیں کہ جس میں پیپلزپارٹی کا سٹینڈ بتلاسکیں کہ آیا سیکشن 7 آف پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء سیکشن 19‘ 21‘ 222 سے بھی متصادم ہے یا نہیں۔

آیا کیا حکومت سندھ میں پیپلزپارٹی الیکشن کمیشن کو حد بندیاں کرانے کا اختیار دینے کو تیار ہے یا نہیں تاکہ بلدیاتی انتخابات کرائے جاسکیں۔ 141 اے‘ 222 آرٹیکل کے تحت وہ انتخابات کراسکے‘ تیسرا یہ کہ بلدیاتی انتخابات میں کب تک ہوسکتے ہیں‘ ڈاکٹر شیرافگن نے بھی وقت مانگا ہے کہ وہ سرکاری سطح پر الیکشن کمیشن کا سیکشن 7 اور 19 کے باہم متصادم ہونے بارے تحریری جواب داخل کراسکیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سیاسی حکومت سٹینڈ لینے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں ہائیکورٹ نہیں جاتیں اور سارا ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم کس کس بات کا فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو جواب دیں ہم آپ کو موقع دے رہے ہیں کہ آپ اپنا موقف دے دیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے فنانشل اور انتظامی معاملات بارے فیصلہ کرنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ جو بھی کہہ رہے ہیں ہم اسے مانتے ہیں مگر آپ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی اور پنجاب حکومت کا کمال یہ ہے کہ دو متضاد فیصلوں کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ انتخابات میں تاخیر کی ذمہ دار ہیں ان پر نام بھی آئے گا۔ ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں۔ آپ سب دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں۔ دریا میں اترنے کو کوئی تیار نہیں ہے تو ہم کیا فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ نے کہا کہ بار کے سینئر ممبر ہونے کے ناطے آپ اپنے موکل کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کررہے ہیں۔ جمعرات کو مزید سماعت کریں گے۔