اسلام آباد ہائیکورٹ ، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کی درخواست ضمانت ضمانت بعداز گرفتاری منظور، میرا موکل بغیر کسی وجہ کے ایک سال اور چار ماہ سے نیب کی تحویل میں ہے ، وکیل کے عدالت میں دلائل

جمعرات 13 مارچ 2014 08:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔13مارچ۔ 2014ء) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کی ضمانت بعداز گرفتاری مقدمے کی سماعت میں عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت منظور کرلی ۔جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے سماعت کی‘ توقیر صادق کے وکیل سردار عصمت اللہ نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کیساتھ نیب کی جانب سے امتیازی سلوک ہورہا ہے‘ بدقسمتی سے میرا موکل چیئرمین اوگرا تھا جبکہ تین باقی ملزمان جو ممبر بورڈ تھے‘ نیب کی جانب سے نامزد کئے گئے تھے ان میں سے دو کی ضمانت ہوگئی ہے اور ایک کو گرفتار ہی نہیں کیا گیا۔

اوگرا کرپشن کیس میں نیب کی جانب سے جو ریفرنس تیار کیا گیا اس میں باقی 9 ملزمان کو ابھی تک نیب نے گرفتار ہی نہیں کیا جبکہ صرف توقیر صادق کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

سردار عصمت اللہ ایڈووکیٹ نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہاکہ میرا موکل بغیر کسی وجہ کے ایک سال اور چار ماہ سے نیب کی تحویل میں ہے جبکہ ریفرنس میں نامزد ملزمان کی تعداد 12 ہے جس پر عدالت نے پراسیکیوٹر نیب سعیدالرحمن سے اسفسار کیا کہ باقی ملزمان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔

سعیدالرحمن ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان میں سے مرکزی ملزم توقیر صادق تھا جوکہ اوگرا میں سب سے اہم پوسٹ پر تعینات تھا۔ اس اہمیت کے پیش نظر ملزم کا نیب کی حراست میں ہونا ضروری ہے۔ ملزم کو دبئی میں امیگریشن کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اوگرا کیس میں قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا لہٰذا یہ کیس ملکی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا کیس ہے۔

سعیدالرحمن نے عدالت سے استدعاء کی کہ ملزم کی درخواست ضمانت خارج کی جائے تاکہ نیب ملزم سے باقاعدہ تفتیش کرسکے۔ اگر ملزم کی ضمانت ہوجاتی ہے تو ملزم بیرون ملک فرار ہوجائے گا۔ جسٹس ریاض احمد خان نے سعیدالرحمن ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ اوگرا کیس میں کل کتنے ملزمان شامل تفتیش ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اوگرا کرپشن کیس میں ملزمان کی تعداد 12 ہے جبکہ 88 گواہ شامل ہیں۔

سردار عصمت اللہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کا جسمانی ریمانڈ غیرقانونی ہے اور نیب نے بلاوجہ قید میں رکھ کر امتیازی سلوک کیا ہے۔ میرے موکل کیساتھ نامزد میر کمال بجارانی اور مظفر علی کی ضمانت ہوچکی ہے جبکہ میرے موکل کو 67 دن بغیر کسی ریمانڈ کے نیب نے حراست میں رکھا۔ جسٹس ریاض احمد خان نے سعیدالرحمن سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ نیب کچھ ملزمان کو گرفتار کرتی ہے اور کچھ کو گرفتار ہی نہیں کرتی۔

اس پر سعیدالرحمن ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ توقیر صادق اوگرا کرپشن کیس میں انتہائی اہم اور مرکزی ملزم تھا اور ملزم کیس منظر عام پر آنے سے پہلے ہی ملک سے فرار ہوگیا تھا۔ مارچ 2012ء میں توقیر صادق چیئرمین اوگرا تھا۔ کرپشن کے الزامات لگنے کے بعد اچانک غائب ہوگیا اور افغانستان کے راستے دیگر ممالک سے ہوتا ہوا دبئی چلا گیا تھا۔ 20 جولائی 2013ء کو ملزم کو پاکستان لایا گیا اور اسی روز احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔

ملزمان کیخلاف تمام چارج شیٹس اور دستاویزات موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملزم کرپشن میں ملوث تھا۔ جسٹس ریاض احمد خان نے کہا کہ ملزم کس طرح گرفتار ہوا عدالت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ ملزم پر اصل کیس کیا ہے اور اوگرا کرپشن کیس میں صرف ایک ملزم کو ہی کیوں گرفتار کیا گیا باقی ملزمان کو ضمانت کیسے مل گئی۔

سعیدالرحمن ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر اوگرا میں 80 ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا جس میں ملزم کو حراست میں رکھنا نیب کیلئے انتہائی ناگزیر ہے۔ دلائل کے دوران سعیدالرحمن نے عدالت سے استدعاء کی کہ ملزم کی درخواست ضمانت خارج کی جائے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ ملزم توقیر صادق 10,10لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرائے عدالت نے ملزم کی درخواست منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیدیا ۔