قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس، 2009-10ء میں جی پی فنڈز سے پچاس کروڑ روپے دیگر کاموں میں خرچ کئے گئے ہیں،سٹیل ملز حکام کا اعتراف ، کمیٹی کی ذمہ داروں کا تعین اور رقم ایک سال میں قسطوں میں واپس جمع کروانے کی ہدایت، سٹیل ملز سے متعلق آڈٹ اعتراضات نیب کی تحقیقات تک ملتوی ،شیخ رشید نے معاملہ نیب کو بھجوانے کی سفارش کی مگر عارف علوی نے مخالفت کردی، غیر معیاری چاول کی خریداری کا معاملہ ایف آئی اے کے سپرد ، تین ماہ کی تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت

جمعہ 14 مارچ 2014 07:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں سٹیل ملز حکام نے اعتراف کیا ہے کہ 2009-10ء میں جی پی فنڈز سے پچاس کروڑ روپے دیگر کاموں میں خرچ کئے گئے ہیں،جس پر کمیٹی نے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کردی اور رقم ایک سال میں قسطوں میں واپس جمع کروانے کی بھی ہدایت کی جبکہ سٹیل ملز سے متعلق آڈٹ اعتراضات نیب کی تحقیقات تک ملتوی کردی گئی جبکہ کمیٹی نے غیر معیاری چاول کی خریداری کا بھی معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کرتے ہوئے تین ماہ کی تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کااجلاس جمعرات کے روز چیئرمین کمیٹی سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ، اجلاس میں پاکستان سٹیل ملز کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ، اجلاس میں سٹیل ملز کے حکام نے اعتراف کیا کہ 2009-10ء میں جی پی فنڈز سے پچاس کروڑ روپے دیگر کاموں میں خرچ کئے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ یہ رقم کیسے واپس کی جائے گی؟۔

شیخ رشید نے معاملہ نیب کو بھجوانے کی سفارش کی مگر عارف علوی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائی جائے ۔ رکن کمیٹی شیخ رشید کا کہنا تھا کہ مزدوروں کو تین ماہ کی تنخواہ نہیں ملی اور ان کا فنڈ بھی خرچ کردیا گیا کمیٹی نے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کردی اور رقم ایک سال میں قسطوں میں واپس جمع کروانے کی بھی ہدایت کی ۔

کمیٹی نے سٹیل ملز سے متعلق آڈٹ اعتراضات نیب کی تحقیقات تک ملتوی کردی ۔ اجلاس کے دوران وفاقی سیکرٹری تحفظ خوراک سیرت اصغر نے کہا کہ وہ وزارت خوراک و زراعتکے آڈٹ اعتراضات کا جواب نہیں دینگے یہ وزارت صوبوں کو منتقل ہوچکی ہے اور وہ وزارت خوراک و زراعت کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہیں ہیں ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت خوراک وزراعت بے شک صوبوں کو چلی گئی ہے لیکن اب وزارت تحفظ خوراک تمام اعتراضات کا جواب دہ ہے ۔

سیکرٹری تحفظ خوراک نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزارت خوراک و زراعت کے ذیلی ادارے بھی صوبوں کو چلے گئے ہیں اور وزارت کے تمام اثاثہ جات کابینہ کو چلے گئے ہیں ۔ چار ماہ بعد جب ہماری وزارت قائم ہوئی تو اس کا مینڈیٹ وفاق اور فاٹا تک تھا کمیٹی نے کہا کہ ہم وزارت خوراک و زراعت کے آڈٹ اعتراضات کو نہیں چھوڑینگے کمیٹی نے وزارت قانون اور کابینہ ڈویژن سے رائے لینے کا فیصلہ کیا آڈٹ حکام نے کہا کہ جو وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئیں ان کا ریکارڈ وزارت کابینہ کی ڈویژن کی تحلیل سیل میں ہے ۔

وزارت قومی تحفظ خوراک 2009-10ء کے دوران دس کروڑ سے زائد کی بے قاضبطگیاں ہوئی ہیں ۔ پاسکو حکام نے بتایا کہ اس دفعہ گندم کی پیداوار بہتر رہنے کی توقع ہے رواں سال گندم کا ہدف 25ملین ٹن رکھا گیا ہے پاسکو سولہ لاکھ ٹن گندم خریدے گا نجی سیکٹر کی طرف سے خریداری کے باعث ممکن ہے کہ پاسکو ہدف حاصل نہ کرسکے اگر پاسکو اپنا ہدف پورا نہیں بھی کرتا تب بھی گندم ملک کے اندر موجود رہے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے باردانہ کے حوالے اپنے انتظامات بھی مکمل کررہے ہیں کوشش ہوگی کہ کسانوں کو باردانہ کے حوالے سے کوئی مشکل نہ ہو افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو گندم کی سمگلنگ روکنا ہوگی سمگلنگ روکنے کیلئے مقامی قیمت میں اضافہ ضروری ہے کمیٹی نے کہا کہ پاسکو کسان سے 102کلو کی بوری خریدتا ہے مگر پیسے صرف 100کلو کے دیئے جاتے ہیں 2کلو کے پیسے کہاں جاتے ہیں کوئی پتہ نہیں ایم ڈی پاسکو نے کہا کہ اضافی گندم کی مد میں 1.1ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں ۔

رکن کمیٹی روحیل اصغر نے کمیٹی سے بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی آڈٹ پر بات کرے گندم کی ناپ تول میں نہیں آڈٹ حکام نے کہا کہ پاسکو کو غیر معیاری چاول کی خریداری سے 41کروڑ روپے کانقصان ہوا ہے پاسکو نے کہا کہ ہم نے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی ہے مگر تمام لوگ عدالتوں سے بحال ہوگئے ہیں ۔ کمیٹی نے معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کرتے ہوئے تین ماہ کی تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے پاسکو حکام نے کہا کہ باردانہ کے معاملے میں ٹھیکیداری نظام مسئلہ پیدا کرتا ہے سیاسی مداخلت کے باعث ٹھیکیداری نظام مزید الجھ گیا ہے مقامی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ان کے قریبی ٹھیکیداروں کو نوازا جائے ہماری ترجیح ہوتی ہے کہ جو ٹھیکیدار زیادہ لیبر دے اسے ٹھیکہ دیا جائے ۔