امریکا نے پاکستان میں ڈرون حملے کم کردیئے،اقوام متحدہ ، گذشتہ سال صرف 27 حملے کئے گئے جبکہ 2010ء میں 128 حملے کیے گئے تھے، 2013ء میں امریکی ڈرون حملوں میں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، حملو ں کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو نشانہ بنانے تک محدود رکھا گیا، افغا نستا ن اور یمن میں ڈرون حملوں سے عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو ئیں ،خصوصی نمائندے بین ایمرسن کی جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 14 مارچ 2014 07:59

جنیوا (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مارچ۔2014ء)اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے دعویٰ کیا ہے کہ 2013ء میں پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بین ایمرسن نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان میں ڈرون حملوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی جس کا مقصد عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنا تھا اور 9 برسوں میں پہلی بار پاکستانی قبائلی علاقوں میں کسی بھی شہری کی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں گزشتہ سال صرف 27 حملے کئے گئے جبکہ 2010ء میں 128 حملے کیے گئے تھے۔ بن ایمرسن نے بتایا کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں بڑھتی ہوئی تنقید کے باعث ڈرونز حملوں میں کمی گئی اور اسے صرف انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو نشانہ بنانے تک محدود رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہو ں نے کہا کہ وہ پاکستان میں امریکا کے ڈرون حملوں میں کمی کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت بیان کرنے پر بہت خوش ہیں ،بین ایمرسن انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شاید گزشتہ نو برس کے دوران سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے قبائلی علاقوں میں (ڈرون حملوں کے نتیجے میں) ایک بھی شہری ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔انہوں نے افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے ایک مشن کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2012ء اور 2013ء کے دوران افغانستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں میں تین گْنا اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ڈرون حملوں کے نتیجے میں 45 افغان شہری ہلاک ہوئے۔بین ایمرسن کے مطابق یمن کی صورتِ حال بھی خاصی تشویشناک ہے جہاں ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں یہ حملے بالخصوص بہت بڑھ گئے تھے اور شہری ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ ایمرسن نے بدھ کو یہ باتیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں خطاب کے بعد صحافیوں کو بتائیں۔

خیال رہے کہ امریکا افغانستان کے ساتھ ملحق پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے کو دہشت گردوں کا گڑھ قرار دیتا رہا ہے۔ واشنگٹن حکام کا موٴقف رہا ہے کہ ان علاقوں میں چھپے ہوئے انتہاپسند سرحد پار افغانستان میں اور دیگر خطوں میں دہشت گردی کے منصوبے بناتے ہیں۔ اس بنا پر واشنگٹن انتظامیہ ڈرون حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف کارگر ہتھیار قرار دیتی رہی ہے اور ان کے نتیجے میں متعدد اہم انتہاپسند رہنماوٴں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

وا ضع رہے کہ یہ ڈرون حملے پاکستان میں انتہائی غیرمقبول ہیں۔ اسلام آباد حکومت بھی ان حملوں کو ملکی خودمختاری کے خلاف قرار دیتی ہے اور امریکا سے انہیں روکنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔امریکا مشتبہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے پاکستان کے علاوہ افغانستان اور یمن میں بھی ڈرون طیارے استعمال کرتا ہے۔