قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس ، اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ کے مطالبہ سے اتفاق، انتخابی طریقہ کار سے اختلاف، کمیٹی نے اقلیتوں کے حوالے سے آئینی(ترمیمی)بل2013ء کی منظوری دینے سے انکار کردیا، وزارت کے انصاف تک رسائی پروگرام اور بینظیر بھٹو کرائس سینٹرز کے قیام،مختص بجٹ،سابق بجٹ اور اسکے استعمال اور آڈٹ تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت،اقلیتی ارکان کا قومی اسمبلی میں10 اقلیتی نشستوں کو بڑھا کر16 اور موجودہ 23صوبائی اقلیتی نشستوں کو بڑھا کر32کرنے کا مطالبہ، اقلیتی نشستیں بڑھانے کا مطالبہ جائز مطالبہ ہے،جس پر دو آراء نہیں ہیں،چےئرمین کمیٹی محمد بشیر ورک، نشستیں بڑھانے کا فیصلہ اور دو حلقہ برائے رائے دہندگان کا تعین پارلیمان نے کرنا ہے،سیکرٹری الیکشن کمیشن

جمعہ 14 مارچ 2014 07:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14مارچ۔2014ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون،انصاف وانسانی حقوق نے پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ کے مطالبہ سے اتفاق اور ان کے انتخابی طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے اقلیتوں کے حوالے سے آئینی(ترمیمی)بل2013ء کی منظوری دینے سے انکار کردیا،کمیٹی نے وزارت قانون وانصاف وانسانی حقوق کے انصاف تک رسائی پروگرام اور بینظیر بھٹو کرائس سینٹرز کے قیام،مختص بجٹ،سابق بجٹ اور اسکے استعمال اور آڈٹ کی تفصیلات کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کردی،اقلیتی ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی میں10 اقلیتی نشستوں کو بڑھا کر16 اور موجودہ 23صوبائی اقلیتی نشستوں کو بڑھا کر32کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ اقلیتی نشستوں کو ناکافی قرار دے دیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون،انصاف وانسانی حقوق کا اجلاس چےئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آئینی(ترمیمی)بل2013ء کا تفصیلی جائزہ لیاگیا،کمیٹی نے مذکورہ بل کو اس کی موجودہ حالت میں منظور کرنے سے انکار کردیا،وزارت قانون کی جانب سے پی ایس ڈی پی برائے2013-14ء کے لئے تجاویز پر بات کرتے ہوئے چےئرمین کمیٹی چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا کہ باوجود اس کے کہ کمیٹی کو بجٹ کے حوالے سے تجاویز دیر سے موصول ہوئی ہیں تاہم پھر بھی کمیٹی کے اراکین ان پر غور کریں گے،سیکرٹری وزارت قانون وانصاف جسٹس(ر) رضا نے کمیٹی کو مطلع کیا کہ عام طور پر لاء اینڈ جسٹس کے ترقیاتی منصوبے نہیں ہوتے تاہم وزارت کے تحت عدالتوں کی عمارت کی تعمیر اور بہتری کے حوالے سے منصوبے جاری رہتے ہیں،نجمہ پروگرام کی ڈائریکٹر جنرل انصاف تک رسائی پروگرام نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت کل18منصوبے جاری ہیں جن میں سے12جاری ہیں اور6 مستقل میں شروع کئے جائیں گے جبکہ پروگرام کے لئے ترقیاتی بجٹ میں1000ملین روپے کا تقاضا کیا گیا ہے،انہوں نے بتایا کہ رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعمیرات کے حوالے سے52.842ملین روپے کی لاگت سے منصوبہ جاری ہے،سپریم کورٹ کی تعمیرات وآرائش کے حوالے سے بھی کام جاری ہے،وزارت قانون وانصاف کے انسانی حقوق کے لئے سینٹرون کے قیام کے حوالے سے ایک منصوبہ جاری ہے جس کے تحت ملک بھر میں انسانی حقوق کی نگرانی،معلومات کو جمع کرنے کے حوالے سے کام کیا جائے گا،کے حوالے سے تجاویز وزارت کو منظوری کے لئے بھیجی جارہی ہیں،ملک کی چند بڑی جامعات میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے خصوصی تحقیقی سیل کے قیام پر بھی کام جاری ہے،انہوں نے کہا کہ وزارتقانون کے مذکورہ انسانی حقوق شعبہ نے حکومت سے جاری منصوبوں کیلئے 278ملین اور مستقبل کے نئے منصوبوں کیلئے 311 ملین کے بجٹ کی فراہمی کا تقاضا کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس شعبہ کے تحت ملک بھر میں97ء سے لیکر2011ء تک ملک بھر میں26بے نظیر بھٹو انسانی حقوق سینٹر قائم کئے گئے ہیں جس کیلئے موجودہ بجٹ میں60 لاکھ روپے فی سینٹر کا تقاضا کیا گیا ہے،اس موقع پر رکن کمیٹی محمد ایاز سومرو نے انصاف تک رسائی پروگرام کے حوالے سے تفصیلات اور آڈٹ معلومات کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔وزارت قانون،انصاف و انسانی حقوق کے جسٹس (ر) محمد رضا خان نے کمیٹی کو علیحدہ سے بریفنگ دینے کی پیشکش کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئٹہ،خضدار اور سبی میں تین سینٹر قائم کئے گئے ہیں۔رکن کمیٹی علی محمد خان نے اعتراض کیا کہ برسوں سے بے شمار قیدی بشمول خواتین وبچے جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں،اس پر وزارت کی کیا کارکردگی ہے۔چےئرمین کمیٹی نے مذکورہ وزارت کو انصاف تک رسائی اور بے نظیر بھٹو سینٹرز برائے انسانی حقوق کے منصوبوں کی تفصیلات،بجٹ کارکردگی،مالی تقاضہ جات اور قیدیوں کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے کمیٹی سے رپورٹ مانگ لی۔

آئینی (ترمیمی)بل2013ء پر اقلیتوں کا مؤقف بیان کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے کمیٹی کو بتایا کہ1985ء سے اب تک قومی اسمبلی کی نشستوں پر اضافہ کے باوجود اقلیتوں کی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا۔انہوں نے ہر صوبے کو چار اقلیتی حصوں میں تقسیم کرنے اور جداگانہ اور باقاعدہ دونوں نشستوں پر اقلیتوں کو ووٹ کا حق دینے کی تجویز پیش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے ابتر حالات کسم پرسی کی وجہ سے18000افراد پڑوسی ملک میں ویزہ کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ایک اور اقلیتی رکن ڈاکٹر درشن نے کمیٹی کو بتایا کہ دور دراز علاقوں میں اقلیتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ کرکے موجودہ نظام کو جوں کا توں رکھنے پر زور دیا۔اقلیتی رکن اسفندیارایم بھنڈارا نے کہا کہ 90 کی دہائی تک اقلیتی نشستوں پر پیسے کا استعمال ہوتا تھا تاہم اب جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہوا ہے اور پیسے کا استعمال کم ہوا ہے۔

تمام اقلیتی اراکین نے قومی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کو 10سے بڑھا کر16کرنے اور صوبائی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کو23سے بڑھا کر32کرنے کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر چےئرمین کمیٹی محمد بشیر ورک نے آئینی(ترمیمی)بل2013ء کو اہم قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ اقلیتی نشستیں بڑھانے کا مطالبہ جائز مطالبہ ہے،جس پر دو آراء نہیں ہیں۔انہوں نے سوالات اٹھائے کہ نشستیں بڑھانے کا عمل ترجیحی نشستوں پر منحصر ہونا چاہئے یا انتخابات سے مشروط کیا جائے،اگر جداگانہ حلقے بنائے جائیں تو کن بنیادوں اور کس لحاظ سے بنائے جائیں،اقلیتوں کیلئے کیسے متعلقہ حلقے متعارف کرائے جائیں جبکہ اقلیتوں میں دیگر مذاہب بھی شامل ہیں۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ اقلیتی حلقوں کی نئی حدود کے تعین کیلئے مردم شماری اور اقلیتوں کی صحیح تعداد کا علم ہونا ضروری ہے،نشستیں بڑھانے کا فیصلہ اور دو حلقہ برائے رائے دہندگان کا تعین پارلیمان نے کرنا ہے۔جسٹس (ر) محمد رضا خان نے کہا کہ اگر نشستوں میں اضافہ ہوبھی جائے تو اس کا اطلاق آئندہ انتخابات پر ہی ہوسکے گا،جس کیلئے مردم شماری کا عمل نہایت ضروری ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا شیرانی نے کہا کہ غیر مسلم پاکستانیوں کیلئے جاری موجودہ نظام رائے دہندگی کو جاری رکھنا ہی ان کے مفاد میں ہوگا،کمیٹی نے اقلیتوں کے حوالے سے آئینی(ترمیمی)بل2013ء کو اس کی موجودہ شکل میں منظور کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا۔