اسلامی ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان کو دئیے ہیں کیا اس کا تعلق شام بارے پاکستان کی غیرجانبدارانہ پالیسی میں تبدیلی سے تو نہیں؟ ،پیپلز پارٹی کی سینٹ میں تحریک التواء

ہفتہ 15 مارچ 2014 07:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15مارچ۔2014ء ) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جمعہ کے روز ایک تحریک التوا سینیٹ میں جمع کرائی ہے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ ایک اسلامی ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان کو دئیے ہیں کیا اس کا تعلق شام کے بارے میں پاکستان کی غیرجانبدارانہ پالیسی میں تبدیلی سے تو نہیں؟ فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک کا قرضہ 800 ارب روپے کم ہوگیا ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت بڑھ گئی ہے اور روپے کی قیمت میں یہ اضافہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے بعد ہوا ہے۔

لیکن ہمیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ کیا اس کے بدلے ملک کی خارجہ پالیسی کا سودا تو نہیں کیا گیا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کے روز کہا کہ ایک اسلامی ملک جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دئیے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ رازداری بہت سارے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کا قیام کب اور کس مقصد کے لئے عمل میں لایا گیا اور کچھ عرصہ پہلے قائم کئے گئے فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کا کیابنا۔

ہمیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ رقم گرانٹ ہے، مدد ہے یا قرضہ ہے؟ اور اگر یہ قرضہ تو یہ کن شرائط پر حاصل کیا گیا ہے؟ کیونکہ دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات میں کوئی بھی چیز مفت نہیں ہوتی۔ اور یہ ایسے امور ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شام مشرقِ وسطیٰ کا، افغانستان بن سکتا ہے اور انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کے تجربے کے بعد اب کوئی اور ایڈونچر نہیں کیا جانا چاہیے۔

ہمیں اگر مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں اس طرح سے گھسیٹ لیا گیا تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب یہ رپورٹیں سامنے آئیں کہ ایک اسلامی ملک شامی باغی کے لئے انیٹی ائیرکرافٹ اور اینٹی ٹینک کی سپلائی کی بات کر رہا ہے۔ اس کے بعد یہ شکوک و شبہات مزید تقویت پا گئے جب ایک غیرملکی شخصیت کے دورے کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ شام میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو ملک کا انتظام و انصرام سنبھال لے۔

سرتاج عزیز نے اس مشترکہ بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جینوا (ا) معاہدے کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ جینوا(۱) کا مشترکہ اعلامیہ تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے پر زور دیتا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ شام ایک سیاسی عمل کے ذریعے شامی عوام کے لئے تبدیلی لائے اور یہ تبدیلی شامی عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کے مطابق ہو۔ اس میں کہیں بھی کسی عبوری حکومت کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لئے ان دو اعلامیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔