سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو خصوصی قرضے کی خبر یں افواہ ہیں ،سرتاج عزیر ،ڈرون حملے پاکستان کے کہنے پر بند نہیں ہوئے لیکن ہمارا موقف سمجھا ضرور ہے‘’پا ک ،امریکہ میں ڈرون حملوں کی بندش بارے کوئی مفاہمت طے نہیں پائی ‘پاکستان خطے اور عالم اسلام میں اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن رہیگا ،مشیر امور خارجہ ، خطے کے تمام ممالک کو افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی کو اپنانا ہوگا،پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کر نے کی کوشش کریگا، پا ک ایران گیس منصوبہ قائم ، پابندیوں کی وجہ سے عملدر آمد کے اوقات کار کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا،بی بی سی کو انٹرویو

اتوار 16 مارچ 2014 07:25

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16مارچ۔2014ء )وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ، سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے طالبان سے مذاکرات کے لیے کسی مفاہمت کے تحت یا ایک سہولت کے طور پر بند نہیں کیے ہیں، امن مذاکرات کا مقصد ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا ہے لیکن جب بھی حکومت کو یہ نظر آیا کہ طالبان کے کچھ گروہ امن نہیں چاہتے ہیں تو ان کے خلاف آپریشن کیا جائے گا چاہے وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہوں، انہوں نے سعودی عرب سے پاکستان کو خصوصی قرضے کی خبروں کو افواہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں اور عالم اسلام میں اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن رہیگا ۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار بی بی سی اردو سے خصوصی انٹرویو میں کہی ۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے جب امریکہ کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے اس وقت امریکی صدر بارک اوباما کو ڈرون حملوں کے بے سود ہونے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ڈرون حملوں کی بندش کے بارے میں کوئی مفاہمت طے نہیں پائی ہے۔

’اگرچہ امریکہ نے باقاعدہ طور پر ڈرون حملے ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے اور نہ وہ کرے گا، مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر نے ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان کے موقف کو سمجھا ضرور ہے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ کیا امریکہ نے ڈرون حملے پاکستان کی حکومت کے طالبان سے مذاکرات میں سہولت کے طور پر بند کیے ہیں؟ سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکہ نے یہ حملے پاکستان کے کہنے پر بند نہیں کیے ہیں البتہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ڈرون حملوں کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کے موقف کو مناسب سمجھا ہے۔

"طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی پالیسی کار فرما نہیں ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا مقصد ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا ہے لیکن جب بھی حکومت کو یہ نظر آیا کہ طالبان کے کچھ گروہ امن نہیں چاہتے ہیں تو ان کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔" جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملے بند کیے ہیں تو اس کے جواب میں امریکہ سے پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی پالیسی کار فرما نہیں ہے۔وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کا مقصد ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا ہے لیکن جب بھی حکومت کو یہ نظر آیا کہ طالبان کے کچھ گروہ امن نہیں چاہتے ہیں تو ان کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کی صورت میں اور اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر پاکستان کے جن علاقوں میں بھی شدت پسند یا ان کے اتحادی موجود ہیں ان کے خلاف امن بحال کرنے کے لیے کارروائی کے جائے گی چاہے وہ کراچی ہو یا ملک کا کوئی اور حصہ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی اب کوشش ہے کہ وہ علاقائی سطح پر ایسی پالیسی کو بڑھاوا دے جس کے تحت افغانستان کے عوام کو اپنی مرضی کے مطابق اپنی حکومت چلانے کا موقع مل سکے۔

انھوں نے اس سلسلے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی ختم ہو چکی ہے۔تا ہم انھوں نے زور دے کر کہا کہ خطے کے تمام ممالک کو افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔ ’افغانستان کے بارے میں عدم مداخلت کا اصول پاکستان اب اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی حصہ قرار دے رہا ہے اور یہی وہ خطے کے دوسرے ممالک سے چاہے گا۔

‘بھارت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس کے افغانستان میں تعمیری کاموں میں شرکت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔سعودی عرب کے جانب سے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کے خصوصی قرضے کی خبروں کو افواہ قرار دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان خطے میں اور عالم اسلام میں اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن رہیگا۔ سعودی عرب کے جانب سے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کے خصوصی قرضے کی خبروں کو افواہ قرار دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان خطے میں اور عالم اسلام میں اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر گامزن رہیگا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو کوشش ہو گی کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرے نہ کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی کوشش ہو گی کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرے نہ کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرے۔شام کے بارے میں بھی سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اپنی غیر جانبدارانہ پالسی پر قائم ہے اور اس کا وہی موقف ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں شام کے بارے میں ہے۔

انھوں نے ان تجزیوں کی بھی تردید کی جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کو سعودی عرب کے کہنے پر شام بھیجے گا۔پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ قائم ہے مگر پابندیوں کی وجہ سے اس پر عملدر آمد کے اوقات کار کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا۔