سابق چیف جسٹس کی عارضی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش ، 70 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کردی گئی ،رجسٹرار سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر جاری کام بارے مکمل آگاہ تھے ، وہ اس وقت معاملے پر پاک پی ڈبلیو دی کے حکام سے رابطے میں تھے،رپورٹ

پیر 17 مارچ 2014 07:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17مارچ۔2014ء) سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی گزشتہ سال ریٹائرمنٹ کے بعد اختیار کی جانیوالی عارضی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر 70 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کردی گئی جبکہ یہ سلسلہ یہاں پر ہی نہیں تھما بلکہ بھی تزئین و آرائش کا کا م جاری ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد سابق چیف جسٹس اپنی پرانی رہائش گاہ کے بالکل قریب ایک سرکاری گھرمیں چھ ماہ کیلئے رہائش پذیر ہوئے تاہم یہ باعث تشویس امر یہ ہے کہ اس گھر کی مرمت اور تزئین و آرائش پر 70 لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی ، یہ خطیر رقم نیا فرنیچر خریدنے ‘ باتھ رومزکی فٹنگ‘ پردوں‘ لکڑی کے فرش اور قالینوں پر خرچ کی گئی، صرف فرنیچر کی خریداری پر سولہ لاکھ روپے خرچ ہوئے اور باتھ روم کی تزئین و آرائش پر 14 لاکھ روپے لاگت آئی 6 لاکھ باتھ رومزکی فٹنگ ‘ 2 لاکھ 70 ہزار رنگ و روغن ‘ ساڑھے سات لاکھ کے نئے پردے ‘ ڈیڑھ لاکھ روپے نئے قالینوں ‘ چھ لاکھ روپے شیڈ کی تعمیر ‘ ساڑھے تین لاکھ لکڑی کے فرش ‘ ساڑھے تین لاکھ ہی نئی ٹائلیں خریدنے ‘ اڑھائی لاکھ چھت کی مرمت اور دو لاکھ روپے ماربل خریدنے اور اس کو لگوانے پر اخراجات آئے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابھی بھی کام جاری ہے اور ان ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کچھ دنوں میں سامنے آئیں گی۔

رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جو اس تمام معاملے کے بارے میں پہلے ہی سن چکی ہے ،نے تزئین و آرائش کے نام پر خرچ کی گئی اس رقم کو اسراف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذکورہ معاملے کو پارلیمنٹ کے نوٹس میں لائیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس جنہوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدارمیں متعدد تاریخی فیصلے سنائے نے اپنے اہل خانہ کے شفٹ ہونے کے فوراً بعد ہی اپنی حالیہ سرکاری رہائش گاہ پر تزئین و آرائش کے احکامات صادر کئے تھے اور یہ حکم پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) تک پہنچا دیا گیا تھا جو کہ وزیراعظم ہاؤس ‘ سپریم کورٹ بلڈنگ‘ منسٹر انکلیو اور جوڈیشل انکلیو سمیت حکومتی عمارات کی مرمت کا ذمہ دار ادارہ ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق اس ادارے کے سینیئر عہدیدار جن کے دائرہ کار میں جوڈیشل انکلیو آتا ہے نے گھر پر بڑے پیمانے پر مرمتی کاکام کرنے سے انکار کردیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ ادارے کے پاس غیر معمولی اخراجات برداشت کے لئے فنڈز نہیں ہیں تاہم بعد ازاں یہ کیس ادارے کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچا جہاں پر ادارے کے اعلیٰ آفیشلز نے اس کام کی منظوری دے دی۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے کے بارے میں پاک پی ڈبلیو ڈی کے ڈائریکٹر عطاالحق اختر کا کہنا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس کے گھرپر ہونے والے اخراجات سے لاعلم ہیں تاہم یہ اخراجات ستر لاکھ کے قریب نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ہم سرکاری مکانات کی معمولی مرمت کرتے ہیں اور وہ اتنی بڑی رقم کی نہیں ہوتی۔ اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک تین کمروں کے گھر کی مرمت پر ستر لاکھ روپے خرچ کردیئے گئے ہوں تاہم ڈی جی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے گھر پر جتنی بھی رقم خرچ ہوئی انہوں نے اس کی منظوری نہیں دی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے اس طرح کوئی اعداد و شمار نہیں دیکھے اور نہ ہی ان کی منظوری دی۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کو چھ ماہ کے لئے جوڈیشل انکلیو میں گھر دیا گیا جس کا انہیں مکمل اختیار ہے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے کے حوالے سے حزب اختلاف کے سیاستدان سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا ہے کہ انہوں نے سینٹ سیکرٹریٹ کو ایک سوال بھیجا ہے جس میں ان سے اس حوالے سے ہونے والے اخراجات ‘ سکیورٹی اور سابق چیف جسٹس کے نئے گھرمیں قیام کی مدت کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی پارلیمانی حلقوں پر لاگو کیا ہے کہ وہ کسی فرد واحد کے ذاتی فائدے کے لئے عوام کے پیسے سے اخراجات کرنے والوں کی رپورٹس کے پیچھے چھپی سچائی کو سامنے لائیں ان کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو موثر انداز مین پارلیمنٹ کے اندر اٹھائیں گے۔ سینیٹر فرحت الله بابر کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے پروٹوکول ‘ سکیورٹی اور شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ان اخراجات پر حیران نہیں ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے کے حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹر فقیر حسین کا کہنا تھا کہ وہ تزئین و آرائش اور مرمت کے کام کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے جبکہ رجسٹرار نے مرمت کے حوالے سے سوالات ای میل کئے جانے پر جواب دینے کی حامی بھری تھی تاہم اب سوالات بھیجے ہوئے بھی دو ہفتے گزر گئے لیکن ابھی تک جوابات نہیں دیئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے ایک صحافی کو بتایا تھا کہ کہ میں نے مذکورہ مرمتی کام کی جانچ پڑتال کی تاہم مجھے اس حوالے سے کچھ پتہ نہیں چلا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ اس طرح کے کام کی تمام معلومات پاک پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہیں۔

آپ اس حوالے سے رپورٹ کی تصدیق کیلئے ان سے رابطہ کریں ۔ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر جاری کام کے حوالے سے مکمل آگاہ تھے کیونکہ وہ اس وقت معاملے پر پاک پی ڈبلیو دی کے حکام سے رابطے میں تھے۔ یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس نے 11 دسمبر کو ریٹارمنٹ کے بعد اپنی سابقہ سرکاری رہائش گاہ چھوڑ دی تھی اور انہیں عدلیہ کے ججوں کی رہائش گاہ کیلئے مختص جوڈیشل انکلیو میں مکان نمبر 12 الاٹ کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :