کچہری حملہ ریاستی ناکامی کا مظہر ،حکومت بتائے ذمہ دار کون ہے، چیف جسٹس،زندگی کا تحفظ ہر شہری کا حق، بہت ہوگیا ہے اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں ،حالات انتہائی خراب ہو چکے،حکومت کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، بہت ہوگیا ہے اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں ، کچری حملہ کرنے کا الزام قبول کرنے والی تنظیم نجانے اصلی بھی ہے یانہیں ہو سکتی ہے فرضی نام ہو،جسٹس تصدق کے کچہری حملہ کیس میں ریمارکس،اظہر ایڈووکیٹ کی نجی ہسپتال سے پلاسٹک سرجری کرانے کا حکم، سانحہ اسلام آباد کچہری کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ مکمل ، د وزارت داخلہ کو ارسال ،تحقیقاتی رپورٹ میں ایس ایس پی آپریشن سمیت وفاقی پولیس کو ناکامی کا مرتکب قرار

منگل 18 مارچ 2014 06:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مارچ۔2014ء)سپریم کورٹ نے ایف ایٹ کچہری حملہ کیس میں سرکاری خرچ پر زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے اور رائے اظہر ایڈووکیٹ کا نجی ہسپتال سے پلاسٹک سرجری کرانے کا حکم دیا ہے۔سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری صحت خود اس کی نگرانی کریں جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف ایٹ کچہری حملہ ریاست کی ناکامی کا مظہرہے۔

حملہ کرنے کا الزام قبول کرنے والی تنظیم نجانے اصلی بھی ہے یانہیں ہو سکتی ہے فرضی نام ہو۔حکومت کو بتانا چاہیے کہ واقعہ کا اصل ذمہ دار کون ہے۔معلوم نہیں حملہ آور کون تھے اس لئے اخباری خبروں پر تبصرہ نہیں کر سکتے ۔زندگی کا تحفظ ہر شہری کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔حالات بہت خراب ہیں ۔

(جاری ہے)

حکومت کب تک ہاتھ پر ہاتھ دوسرے تماشا دیکھتی رہے گی۔

لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔گھر سے کام کے لئے جانے والا ہر شخص کے اہلخانہ اس کی حفاظت واپسی کے شدت سے منتظر رہتے ہیں۔بہت ہوگیا ہے اب یہ معاملات ختم ہونے چاہئیں۔کسی کو کسی کا احساس تک نہیں رہا۔انصاف کے بغیر معاشرے کبھی زندہ نہیں رہتے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہیں کہ حملہ کرنے والی تنظیم کو بخوبی علم ہے کہ اگر حکومت کو ان کے بارے پتہ چل بھی جائے تو کون سا حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کا دن ہے ۔

وکلاء دل چھوٹا نہ کریں۔اب حکومت کو بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔معاملات ایسے نہیں چھوڑ سکتے ۔بہتر ہوگا کہ حکومت خود ان واقعات کی ذمہ داری کو کیفرکردار تک پہنچائے جب تک بلا امتیاز مجرموں کے خلاف کارروائین ہیں ہوگی ۔معاشرے میں امن ممکن نہیں۔انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں۔چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران چاروں چیف سیکرٹریز نے عدالت میں سکیورٹی انتظامات بارے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیا جس پر عدالت نے کہا کہ وہ صوبوں میں سکیورٹی بارے معاملات کا خود جائزہ لیں گے اس کے بعد ہی کوئی حکم جاری کریں گے ۔

ابھی تو انکوائری رپورٹ کا بھی انتظار ہے ۔اس دوران وکلاء نمائندوں نے عدالت کو بتایا کہ جس تنظیم نے اسلام آباد کچہری واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔اسی تنظیم نے کوئٹہ میں بھی دو دھماکے کئے ہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک حملہ آوروں بارے معلومات نہیں ہیں۔اس لئے اخباری خبروں پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔عدالت کو بتایا کہ ایک زخمی وکیل رائے اظہر کا پمز میں علاج کیا جارہا ہے مگر انہیں پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہے اس لئے اس کو نجی ہسپتال منتقل کرنے اور پلاسٹک سرجری کرنے کا حکم دیا ہے ۔

اس پر عدالت نے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وہ تمام زخمیوں کو سرکاری خرچ پر علاج کرائیں۔اظہر کی بھی پلاسٹک سرجری کرائی جائے ۔اگلے ہفتے تک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔دوسری جانب سانحہ اسلام آباد کچہری کے خلاف چیف کمشنر اسلام آباد کی ہدایات پر تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ڈی سی اسلام آباد مجاہد شیر دل کی سربراہی میں رپورٹ مکمل کرنے کے بعد د وزارت داخلہ کو ارسال کر دی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں سانحہ اسلام آباد کچہری ایس ایس پی آپریشن سمیت وفاقی پولیس کو ناکامی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چار سے پانچ حملہ آورفٹ بال گراوٴنڈ کے راستے کچہری میں داخل ہو ئے اور اس دوران ڈیوٹی پر موجود زیادہ اہلکار یا تو چھپ گئے یا بھاگ گئے ، صرف تین اہلکاروں نے دہشتگردوں پر فائرنگ کی۔رپورٹ کے مطابق سول ڈیفنس کے رضا کاروں، سیکیورٹی اہلکاروں ، وکلاء اور زخمیوں کے بیانات بھی ریکارڈکیے گئے جبکہ ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے ریڈر کے بیان کے مطابق انہیں چھوٹی داڑھی والے حملہ آور نے نشانہ بنایا جس سے ان کی موقع پر ہی ہلاکت ہوگئی۔

تفصیلات کے سانحہ اسلام آباد کچہری کی تحقیقاتی کرنے والی والی فیکٹ فاننڈ نگ کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ چیف کمشنر کو پیش کر دی ہے۔ذرائع کے مطابق فیکٹ فابنڈ نگ کمیٹی کی جانب سے تشکیل دی گئی مذکورہ رپورٹ اہم انکشافات سامنے آئے ہیں جس میں سانحہ اسلام آباد کچہری میں وفاقی پولیس کے آپریشنل زون کو ناکامی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق واقعہ سے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد طاہر عالم سمیت وفاقی پولیس کے آپریشن ونگ کے اعلی حکام بے خبر رہے جبکہ جائے وقوعہ پر بھی ایس ایس پی آپریشن کئی گھنٹوں بعد پہنچے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سے متعلق وائر لیس آپریٹر نے بھی غلط معلومات فراہم کی جبکہ ضلعی کچہر ی کی ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں میں سے کچھ واقعے کے چھپ گئے اور کچھ بھاگ نکلے اور صرف تین اہلکاروں نے حملہ آوروں پر گولیاں چلائیں۔ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار سے پانچ حملہ آور فٹ بال گراوٴنڈ کے راستے سے بغیر کسی رکاوٹ اور سیکیورٹی چیکنگ کے کچہری میں داخل ہوئے اور واجد گیلانی ہال کے پاس مشورے کے بعد چاروں طرف تقسیم ہو کر فائرنگ شروع کر دی ،عدالتوں، سائلین اور وکلاء کو ٹارگٹ بنانا شروع کر دیا جہاں یہ فائرنگ کا سلسلہ آدھ گھنٹے سے بھی زائد تک جاری رہا۔

ذرائع کے مطابق فیکٹ فائنڈ نگ کمیٹی نے سول ڈیفنس کے رضا کاروں، سیکیورٹی اہلکاروں ، وکلاء اور زخمیوں کے بیانات بھی ریکارڈکیے گئے ہیں جہاں کمیٹی کو ریکارڈ کروائے گئے بیان میں شہید ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے ریڈر نے کمیٹی کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ رفافت اعوان کو ان کے سیکیورٹی گارڈ نے نہیں بلکہ ایک چھوٹی داڑھی والے حملہ آور نے نشانہ بنایا جس سے ان کی موقع پر ہی ہلاکت ہوگئی تھی۔ذرائع مطابق یہ رپورٹ وفاقی وزیر داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہے۔