80 فیصد واٹر فلٹریشن پلانٹس کی بندش پر قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کا اظہار افسوس ‘ ٹھیک کرنے کی ہدایت‘ وزارت کو جلد از جلد ترقیاتی کام کرنے کی ہدایت

منگل 18 مارچ 2014 06:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18مارچ۔2014ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے ہدایات جاری کی ہیں کہ آئندہ مالی سال کے لئے پیش کئے جانے والے بجٹ میں پینے کے صاف پانی کی ترسیل کے لئے نصب شدہ فلٹریشن پلانٹس کی بحالی کیلئے بجٹ مختص کیا جائے اور تمام صوبائی حکومتوں کو مذکورہ فلٹریشن پلانٹس کی مرمت و بحالی کے حوالے سے تحریری ہدایات جاری کی جائیں کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز چیئرمین کمیٹی چوہدری طارق بشیر چیمہ کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے اعلیٰ حکام نے وزارت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تجویز شدہ بجٹ منصوبوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔

اجلاس کے دوران اراکین کمیٹی کو بتایا گیا کہ سال 2014-15 ء کے بجٹ میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے 70 منصوبوں کیلئے حکومت سے 54771.137 ملین روپے پی ایس ڈی پی کی مد میں طلب کیے ہیں اس وقت وزارت کا کل بجٹ 0.5 فیصد ہے جس کو 2018 ء تک بڑھا کر 2 فیصد تک لے جایا جائے گا وزارت کے حکام نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں جلد نیشنل سائنس و ٹیکنالوجی پارک کا منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے لئے پچاس ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

وزارت بائیو ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی کام کررہی ہے۔ ملک بھر میں 20 کروڑ روپے کی لاگت سے مائیکرو منی ہائیڈرو پلانٹس کی تنصیب کی جارہی ہے اراکین کمیٹی کی جانب سے شمسی توانائی کے حوالے سے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے اعلیٰ حکام نے مطلع کیا کہ شمسی توانائی سے کام کرنے والے ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر کام جاری ہے تاہم یہ ٹیکنالوجی کافی مہنگی ہے مستقبل میں اس حوالے سے تعلقات بہتر ہونے پر سبسڈائز کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے اراکین کو بتایا کہ اسلام آباد گرین بلڈنگ پروگرام کے تحت وفاقی دارالحکومت میں قائم تمام بڑی عمارات کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا اور اس میں پارلیمان کی عمارت بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے متعلقہ وزارت کے حکام کا کہنا تھا کہ کم آمدن والے افراد کے لئے ایک خصوصی شمسی توانائی پیکج فراہم کیا جائے گا جس کا تخمینہ بیس کروڑ روپے ہے اس کے تحت ایک لائٹ (برقی قمقمہ) اور ایک پنکھے کو شمسی توانائی پر چالائی جاسکے گا۔

رکن کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ ملک بھر میں کتنے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کی گئی اور ان میں سے کتنے پلانٹس فعال ہیں اس پر پی سی آر ڈبلیو آر کے حکام کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں زمین کی سطحیں اور جغرافیائی حالات کے الگ الگ طرح کے ہیں تاہم سارے ملک میں ایک جیسے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیہات میں باقاعدہ سیوریج نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ گندگی زیر زمین صف پانی میں شامل ہوکر اس کو آلودہ کررہی ہے۔

رکن کمیٹی علی محمد خان نے کہا کہ مشرف دور حکومت میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب تو کی گئی تاہم ان کو کسی باقاعدہ اتھارٹی کی صوابدید پر دینے کی بجائے ایسے ہی چھوڑ دیا گیا انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ حکومت ان پلانٹس کو دوبارہ فعال بنانے میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔ چیئرمین کمیٹی چوہدری طارق بشیر چیمہ نے ہدایت جاری کی کہ آئندہ بجٹ میں ان فلٹریشن پلانٹس کی بحالی کیلئے معقول رقم مختص کی جائے اور صوبائی حکومتوں کو فلٹریشن پلانٹس کی بحالی کیلئے تحریری ہدایات جاری کی جائیں۔

متعلقہ عنوان :