آڈیٹر جنرل کو آئی ایس آئی سمیت تمام اداروں کے اڈٹ کا اختیار ہے، سپریم کورٹ ،حکومت بتادے کہ پبلک اکاؤنٹس عوام کا پیسہ نہیں ہے تو پھر ہم کسی شفافیت پر اصرار نہیں کریں گے، جسٹس جواد ایس خواجہ،جب بھی ادارے قانون کی خلاف ورزی کریں گے عدالت اور آڈیٹر جنرل اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گے،یو ایس ایف فنڈز کیس سماعت میں ریمارکس

بدھ 19 مارچ 2014 06:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ میں یو ایس ایف فنڈز کیس میں تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے منگل کے روز ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو سرکار چلانے پر مجبور کیا جارہا ہے‘ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ہم سرکار چلائیں اور نہ ہی آڈیٹر جنرل کو چلانا ہمارا کام ہے‘ آرٹیکل 170 کے تحت آئی ایس آئی اور وفاقی وزارت اطلاعات کے تحت تمام خفیہ فنڈز سمیت تمام اداروں کا آڈٹ کرنے کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اختیار حاصل ہے اور اس حوالے سے عدالت پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ عوام کے ایک ایک ٹکے کا حساب لیا جائے گا‘ سات مالی سال گزرچکے ہیں اور 37 سرکاری ادارے اپنا آڈٹ کرانے کو تیار نہیں‘ یو ایس ایف فنڈز کمپنی نہیں ہے کہ جس کا آڈٹ نہ ہوسکے‘ قانون بنے ہوئے بھی آٹھ سال کا عرصہ گزرر گیا مگر ادارے آڈٹ کرانے سے گریزاں ہیں‘ عدالت عوامی فنڈز کے حوالے سے شفافیت چاہتی ہے‘ عدالت اور آڈیٹر جنرل عوامی فنڈز کے نگران ہیں اور جب بھی ادارے قانون کی خلاف ورزی کریں گے عدالت اور آڈیٹر جنرل اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گے‘ حکومت بتادے کہ پبلک اکاؤنٹس عوام کا پیسہ نہیں ہے تو پھر ہم کسی شفافیت پر اصرار نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس گذشتہ روز دیئے۔ جسٹس جواد کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے سال یو ایس ایف ساڑھے پانچ ارب روپے کما رہا تھا اب یہ فنڈز وفاق کے پاس جانے کے بعد یہ ایک ٹکا بھی نہیں کمارہا ہے۔ اس طرح کی اجازت تو نہیں دیں گے۔ ان فنڈز کے نتائج کیا ہوں گے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ رولز میں کیا تھا اور اٹھارہویں ترمیم میں کیا کردیا گیا ہے۔

اگر وفاقی حکومت قانون کے مطابق بھی یہ پیسہ لے گی تب بھی اس کا فائدہ یو ایس فنڈز کو نہیں ہوگا۔ یو ایس ایف فندز کیس میں خرم شہزاد درخواست گزار کے وکیل علی رضا پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل بھی پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے گذشتہ روز جو حکم نامہ جاری کیا ہے وہ اس کی آخری دو سے تین لائنیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے کہا ہے کہ اس میں بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

یہ فنڈز پبلک اکاؤنٹ میں جاسکتے ہیں۔ اگر یہ رقم یو ایس ایف کیساتھ تعلق رکھتی ہے تو رقم بینک میں رکھی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کو نوٹ کرلیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے وضاحت مانگی تھی کہ کیا یہ فنڈز کنسالیڈیٹڈ فنڈز میں منتقل کئے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ آڈیٹر جنرل کو یہ ایشو سمجھ میں آگیا ہے یا نہیں۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اس کا معاملہ قانون کے مطابق ہی چلانا ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ یو ایس ایف کا آڈٹ کرتے ہوں گے۔ آرٹیکل 170 کے تحت آپ نے آئی ایس آئی‘ یو ایس ایف‘ وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈز کا بھی معاملہ ہو تو آپ نے اس کا آڈٹ کرنا ہے۔ سات مکمل مالی سال گزر چکے ہیں۔ ان کا آڈٹ ضروری ہے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ فنڈز کے حوالے سے رولز 2006 بنے ہوئے ہیں۔ اس کا آڈٹ نہیں ہوا۔ ہمارے دو فیز ہوتے ہیں۔

ایک جولائی سے دسمبر اور دوسرا جنوری سے جون تک ہوتا ہے۔ ہم نے سب کا آڈٹ کرنا ہوتا ہے۔ 37 اداروں کی فہرست میں یو ایس ایف شامل نہیں تھا۔ علی رضا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کا آڈٹ کرانا ضروری تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آڈیٹر جنرل عوام کے ایک ایک ٹکے کے نگران ہیں۔ ایک ایک ٹکے کا آپ نے حساب لینا ہے۔ سرکار کے اوپر آپ کور اور ہمیں نگران کے طور پر بٹھایا گیا ہے۔

62 ارب روپے منتقل ہوئے ہیں ان کی آپ نے نگرانی کرنی ہے۔ یہ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ہم سرکار کو چلائیں۔ آڈیٹر جنرل کوو چلانا بھی ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ آٹھ سال گزرگئے قانون کو پاس ہوئے آپ آڈٹ تک نہیں کروارہے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈی جی پی این ڈی نے 2002ء سے 2012ء تک ہمارا آڈٹ کیا ہے۔ وزارتوں کے حوالے سے آڈٹ کا اشتہار دیا جاتا ہے پھر انتخاب کرکے وزارت آڈٹ کرنے والی کمپنیوں کا فیصلہ کرتی ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ شفاف معامالت ہوں تو کسی کو کوئی عذر نہیں ہوسکتا۔ یہاں شفافیت تو نظر آئے۔ کچھ بھی تو واضح نہیں ہے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ آپ نے معاملات میں شفافیت پیدا کرنی ہے تو آپ کیا کریں گے۔ آڈیٹر جنرل نے کہاکہ یو ایس ایف کو ایک کمپنی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا آڈٹ خود کرنا ہے۔

وفاقی اداروں کا آڈٹ میں نے کرنا ہے۔ کمرشل اداروں کا آڈٹ ہم نہیں اور اداروں نے کرنا ہے۔ آڈٹ تو ہورہا ہے ہمارے پاس اس کی رپورٹ نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آپ کو ایک روز دے سکتے ہیں ہمیں بتائیں کہ پیسہ عوام کا ہے کیا یہ پیسہ عوام کا نہیں کہ جس کا آڈیٹر جنرل آڈٹ نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے ہمیں بتایا جائے کہ آیا اس کا اگر آڈٹ ہوا ہے تو اس کی رپورٹ کہاں ہے۔

نجی کمپنی نے بتایا کہ ہم نے یو ایس ایف کا 2012ء تک کا آڈٹ کیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل کو تمامتر اداروں کاآڈٹ کرنے کا اختیار ہے یو ایس ایف کمپنی کا آڈٹ تو نجی کمپنی کرسکتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ کمپنی کا آڈٹ نہیں ہمیں فنڈز کا آڈٹ چاہئے۔ کمپنی کے حساب میں رقم چند لاکھ روپے میں ہی ہوگی ہمیں اس کا حساب نہیں چاہئے۔

اصل مسئلہ فنڈز کا ہے وہ ہمیں بتایا جائے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اگر نجی کمپنی کے آڈٹ پر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو اس حوالے سے قومی اسمبلی سے رجوع کیا جاسکتا ہے جو ان تمام معاملات کی نگرانی کرتی ہے۔ ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ آیا جو آڈٹ ہوا ہے وہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہوئے ہیں یا نہیں۔ کیا یہ فنڈز یا ادارہ جس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا کیا وہ اس کے مطابق کام کررہا ہے یا نہیں۔

یہ پیسہ قواعد سے ہٹ کر تو استعمال نہیں کیا گیا۔ بڑے بڑے اشتہارات کا دیا جانا مقاصد میں شامل نہیں۔ یو ایس ایف فنڈز ترقی پذیر علاقوں میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں ٹیلی کام کے حوالے سے سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ عدالت نے آڈیٹر جنرل سے کہا کہ آپ ہمیں بتادیں کہ یو ایس ایف فنڈز کا آڈٹ کون کرسکتا ہے۔ آئینی و قانونی وضاحت تو درخواست گزار کریں گے۔

اس دوران آڈیٹر جنرل کے حوالے سے آرڈر بھی لکھوایا۔ یو ایس ایف فنڈز اور یو ایس ایف کمپنی کے اکاؤنٹس کے حوالے سے آڈیٹر جنرل سے جواب طلب کیا ہے کہ کیا یہ آڈٹ پی ٹی این ٹی کرتا ہے آڈیٹر جنرل کرتا ہے۔ اس حوالے سے آڈیٹر جنرل جواب داخل کریں۔ پی ٹی این ٹی بھی جواب داخل کرے اور 2012ء تک کے آڈٹ کی رپورٹ داخل کی جائے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے تحت معاملات کا حل چاہتے ہیں۔

23 مارچ سے قبل معاملات کا مکمل جائزہ لینا چاہتے ہیں کیونکہ اس دوران تھری جی کی بولی لگنی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہان کے مطابق یو ایس ایف کی رقم ایف سی ایف منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی وفاق کا پبلک اکاؤنٹ ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا اور کہا ہے کہ وفاق کا پیسہ بینک میں جائے گا تو اس کا آڈٹ ضروری ہوجائے گا۔

بینکوں میں پیسہ جائے گا تو وفاق یہ پیسہ استعمال کرسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس معاملے کا بعد میں جائزہ لیں گے۔ علی رضا نے کہا کہ یو ایس ایف کمپنی کے طور پر تو ان کو وفاقی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے۔ اگر ان فنڈز کا آڈٹ آڈیٹر جنرل نے نہیں کرنا تو اس کو بھی کمپنی کا حصہ قرار دے دیا جاتا مگر ایسا انہیں کیا گیا۔ دونوں الگ الگ حیثیتوں سے کام کررہے ہیں۔

آرٹیکل 33 بی کی تحت تمام اداروں پر کنٹرول وفاقی حکومت کا ہے مگر پیسہ حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یو ایس ایف فنڈز سے رقم نہیں لی جاسکتی۔ درخواست گزار خرم شہزاد کے وکیل علی رضا نے اڑھائی بجے تک دلائل دئیے بعدازاں عدالت نے 35 لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی وجہ سے مذکورہ مقدمے کی مزید سماعت (آج) بدھ کو دن بارہ بجے تک ملتوی کردی۔