پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، نواز شریف،پاکستان کو انرجی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جوہری مواد کی ضرورت ہے،وزیراعظم،نیوکلیئرسپلائرزگروپ اوردیگربرآمدی کنٹرول کے اداروں کی رکنیت کے اہل ہیں،غیرامتیازی طورپررکن بنایا جائے،پاکستان ،پاکستان جوہری دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے عملی کوششوں میں شریک ہے، جوہری تنصیبات اورموادکے تحفظ کیلئے سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں جنہیں وقتاًفوقتاًاپڈیٹ بھی کیاجارہاہے ،فوکوشیماکے حادثے کے بعدتمام ایٹمی بجلی گھروں کاتفصیلی جائزہ لیاگیااورمناسب اقدامات اٹھائے گئے، جوہری سلامتی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بیان، کانفرنس کا اعلامیہ جاری

بدھ 26 مارچ 2014 06:47

ہیگ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26مارچ۔ 2014ء)وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ جوہری مسائل کے حل کیلئے عالمی تعاون بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے،پاکستان کو انرجی سیکٹر میں ضروریات پوری کرنے کیلئے جوہری مواد کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اقوام عالم کی ضرورت ہے۔

منگل کے روز وزیراعظم محمد نواز شریف نے جوہری سلامتی کے غیر رسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری سلامتی ایک مسلسل اور قومی ذمہ داری ہے اور جوہری سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے قومی اور عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ جوہری عمل کو مؤثر بنانے کیلئے اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے اور جوہری توانائی ادارے کے رکن ملک کانفرنس کے فیصلوں کی پاسداری یقینی بنائیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے اور 2016ء کے بعد جوہری تحفظ سے متعلق مزید قریبی تعاون پر توجہ دینا ہوگی اور آئی اے ای اے اقوام متحدہ ایٹمی تحفظ کنونشن متعلقہ عالمی فورمز میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جوہری تحفظ میں ہم آہنگی کیلئے آئی اے ای اے قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے اور جوہری تحفظ کے سربراہوں کی حمایت نچلی سطح پر لانا بھی بہت ضروری ہے،اس حوالے سے جوہری تحفظ کے مجوزہ عمل میں اعلیٰ حکام اور ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری تحفظ کے مجوزہ طریقہ کار پر2016ء کی سربراہ کانفرنس میں غور بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل میں فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے راہداری اور اعلانیہ اقدامات میں توازن رکھنا ہوگا۔نواز شریف نے کہا کہ انہیں بہت خوشی ہے کہ آئندہ سربراہ کانفرنس کی میزبانی امریکی صدر باراک اوبامہ کریں گے۔پاکستان نے واضح طورپرکہاہے کہ وہ نیوکلیئرسپلائرزگروپ اوردیگربرآمدی کنٹرول کے اداروں کارکن بننے کااہل ہے اوراسے غیرامتیازی طورپررکن بناناچاہئے ،پاکستان جوہری دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے عملی کوششوں میں شریک ہے اوراس نے جوہری تنصیبات اورموادکے تحفظ کیلئے سخت اقدامات اٹھائے ہیں جنہیں وقتاًفوقتاًاپڈیٹ بھی کیاجارہاہے ۔

فوکوشیماکے حادثے کے بعدتمام ایٹمی بجلی گھروں کاتفصیلی جائزہ لیاگیااورمناسب اقدامات اٹھائے گئے ۔یہ بات منگل کویہاں جوہری سلامتی سربراہ کانفرنس کے موقع پرپاکستان کی طرف سے جاری کئے گئے قومی بیان میں کہی گئی ہے ۔بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان جوہری سلامتی کے فروغ کیلئے پرعزم ہے اوراس نے جوہری تحفظ اورسلامتی کیلئے بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطہ رکھاہواہے ۔

گزشتہ چارسالوں کے دوران بہت سے اقدامات اٹھائے گئے،جوہری سلامتی ریاستی طورپرقومی ذمہ داری ہے ،عالمی برادری کوہرملک کے بین الاقوامی تقاضوں اوررضاکارانہ قومی اقدامات کے ذریعے تعاون کوآگے بڑھاناچاہئے ۔بیان میں کہاگیاہے کہ بین الاقوامی نیوکلیئرسیکورٹی فریم ورک کے تحت ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے اوراقوام متحدہ سمیت مختلف اداروں نے اقدامات اٹھائے ہیں ،ضرورت اس امرکی ہے کہ مساوی ادارے یانظام مرتب کیاجائے۔

اس سربراہ اجلاس کے ذریعے عالمی برادری کوبیدارکرنے میں مددملی ہے اورہم اپنی ذمہ داری اورآئی اے ای اے کے مرکزی کردارکے ساتھ اپنے عزم کااعادہ کرتے ہیں ۔بیان میں قومی ،جوہری سلامتی سمجھوتے کاذکرکرتے ہوئے کہاگیاہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے پانچ ستون ہیں ،جن میں ایک ٹھوس کمانڈاینڈکنٹرول سسٹم ہے ،نیشنل کمانڈاتھارٹی سب سے بڑافیصلہ سازادارہ ہے جووزیراعظم کی سربراہی میں کام کرتاہے ،اس کااپناسیکرٹریٹ اسٹریٹجک پلان ڈویژن اوراسٹریٹجک فورسزکمان ہیں ۔

این سی اے پالیسی خریداریوں ،بھرتیوں اورجوہری سلامتی پرنظررکھتاہے ،دوسرایہ کہ پاکستان کاقومی سلامتی نظام مختلف سطح پرقائم ہے ،جس میں اندرونی ،بیرونی اورسائبرخطرے سے نمٹنے کانظام بنایاگیاہے ۔اس ضمن میں پانچ ڈی کانظریہ موجودہے جس میں مقابلہ ،شناخت،تاخیر،دفاع اورتباہ کردوکے اصول شامل ہیں ۔خصوصی تربیت یافتہ سپیشل رسپانس فورس ہمارے جوہری اثاثوں کے تحفظ کویقینی بناتی ہے ،ایک مضبوط انٹیلی جنس نظام نظررکھتاہے ،باقاعدہ طورپرمشقیں کی جاتی ہیں اورتحفظ وسلامتی کے نظام کوبہترکیاجاتاہے ،تیسرے یہ کہ مضبوط ریگولیٹری نظام موجودہے جس کے تحت مواداورتنصیبات کاتحفظ کیاجاتاہے ،غیرقانونی نقل وحرکت پرنظررکھی جاتی ہے ،پاکستان نیوکلیئرریگولیٹری اتھارٹی ایک خودمختارادارہ ہے ،جوٹھوس جوہری سلامتی ریگولیٹری نظام چلارہاہے ،اوراس کاآئی اے ای اے سے بھی قریبی رابطہ ہے ۔

چوتھے یہ ایک جامع برآمدی کنٹرول نظام موجودہے ،جس کے تحت قانونی ،انتظامی اورریگولیٹری انتظامات اٹھائے گئے ہیں جوان عالمی معیارات کے مطابق ہیں جن کی پیروی نیوکلیئرسپلائرزگروپ این ایس جی ،میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم (ایم ٹی سی آر)اورآسٹریلیاکرتے ہیں ۔پانچویں یہ کہ بین الاقوامی تعاون کیاجاتاہے جوہماری قومی پالیسیوں اورمفادات سمیت بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق ہے ،نیوکلیئرسیکورٹی پروگرام کے تحت سنٹرآف ایکسیلنس قائم کیاگیاہے ،قومی اورعلاقائی تربیتی کورسزمیں سہولت کیلئے پی ایم آراے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سیفٹی اینڈسیکورٹی(این آئی ایس اے ایس)قائم کیاگیاہے جوسنٹرآف ایکسیلنس کاایک اہم جزوہے اوراس کے تحت جدیدلیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں ۔

2014ء میں آئی اے ای اے کے تعاون سے سنٹرآف ایکسی لینس علاقائی تربیتی کورسزکی منصوبہ بندی کررہاہے ،جس میں تابکاری ذرائع کے تحفظ کاکورس بھی شامل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ جسمانی تحفظ اورجوہری سلامتی کورسزبھی تیارکئے جارہے ہیں ۔بیان میں کہاگیاہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران پاکستان نے جوہری تحفظ کے حوالے سے بھاری سرمایہ کاری کی ہے ،فوکوشیماکے حادثے کے بعدتمام جوہری بجلی گھروں کاتفصیلی جائزہ لیاگیااورنظام پرنظرثانی کی گئی اوراب فوکوشیماحادثے کے تجربات کی روشنی میں اقدامات اٹھائے گئے ہیں ،پاکستان نے آئی اے ای اے کے مراکزکے ساتھ مل کرکام کرنے کی تجویزبھی قبول کی ہے جومعیاری ٹیکنالوجی ،اطلاعات کے تبادلے اورتحقیق اورتربیت میں سہولت کیلئے بنائے گئے ہیں ۔

آئی اے ای اے کے ساتھ مل کرتابکاری موادکے تحفظ کیلئے نیوکلیئرسیکورٹی ایکشن پلان پرعمل کیاجارہاہے ،آئی اے ای اے اورپاکستان نیوکلیئرسیکورٹی تعاون پروگرام کے تحت 15جوہری میڈیکل سنٹربنائے گئے ہیں ۔نیوکلیئرایمرجنسی مینجمنٹ سسٹم قائم کیاگیاہے جوقومی سطح پرجوہری اورتابکاری ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے تیارہے ،ایک نیوکلیئراینڈریڈیولاجیکل ایمرجنسی سپورٹ سنٹراورایک نیشنل ریڈیشن ایمرجنسی کوآرڈینیشن سنٹرقائم کیاگیاہے جو24گھنٹے کام کرتاہے اوراس کے پاس جدیدترین آلات ،موبائل لیبارٹریاں اورتکنیکی مہارت موجودہے ۔

بیان میں کہاگیاہے کہ وزارت خارجہ میں قائم اسٹریٹجک ایکسپورٹ کنٹرول ڈویژن متعلقہ وزارتوں اوراداروں کی مشاورت سے 2011ء میں قومی درآمدی کنٹرول فہرستوں کاجائزہ لے چکاہے اوران فہرستوں کویورپی یونین کے مضبوط نظام کی بنیادپرخفیہ رکھاگیاہے اوراس پراین ایس جی آسٹریلیاگروپ اورایم ٹی سی آربھی عملدرآمدکررہ ہیں ۔غیرقانونی نقل وحرکت روکنے کیلئے مختلف خارجی اورداخلی مقامات پرجانچ پڑتال کے آلات لگائے گئے ہیں اورچوبیس گھنٹے ان پرنظررکھی جاتی ہے ،پاکستان سلامتی کونسل کی 1540کمیٹی کے ساتھ مل کرکام کررہاہے اوراب تک چاررپورٹس کمیٹی کودے چکاہے ۔

جوہری موادکے فزیکل تحفظ کے کنونشن اوردیگرسمجھوتوں کے تحت پاکستان نیوکلیئرسیکورٹی فریم ورک میں کام کررہاہے ،ہم آئی اے ای اے کے ضابطہ اخلاق کی پیروی کررہے ہیں ۔بیان کے مطابق پاکستان جوہری دہشتگردی سے نمٹنے (جی آئی سی این ٹی )کے عالمی اقدام کے ساتھ مل کرکام کررہاہے جس میں جوہری تحقیق اوردیگرامورشامل ہیں ،پاکستان 2011-12ء میں آئی اے ای اے کے بورڈآف گورنرزکاچیئرمین رہ چکاہے اوروہ دسمبر2011ء سے اقوام متحدہ کی سائنسی کمیٹی برائے ایٹمی تابکاری کے اثرات (یواین ایس سی ای اے آر)کابھی رکن ہے ۔

بیان کے مطابق پاکستان کاآئی اے ای اے کے تحت جوہری بجلی گھرچلانے کاچارسالہ تجربہ ہے اورپاکستان ایٹمی توانائی کمیشن ایک بڑے قومی ادارے کے طورپرنگرانی کررہاہے ۔بیان میں کہاگیاہے کہ ہمارے اقتصادی ترقی کے ایجنڈے کوآگے بڑھانے کیلئے محفوظ اورٹھوس سول نیوکلیئرانرجی ضروری ہے ،ہماراتوانائی کے تحفظ کامنصوبہ چل رہاہے جس میں جوہری پاورپروگرام 2050ء بھی شامل ہے تاکہ توانائی کی قلت پرقابوپایااورآنے والی نسلوں کی ضروریات کوپوراکیاجاسکے ۔

اس ضمن میں ہم 2030ء تک 8800اور2050ء تک 40ہزارمیگاواٹ بجلی اس ذریعے سے حاصل کرناچاہتے ہیں ،اس ضمن میں پاکستان مساوی بنیادوں پربین الاقوامی سول نیوکلیئرتعاون چاہتاہے ۔پاکستان طویل تجربے کے باعث جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال میں دیگرملکوں سے تعاون کرسکتاہے ،جدیدنیوکلیئرفیئول سائیکل کی صلاحیت والاملک ہونے کے ناطے پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ آئی اے ای اے کے نگرانی میں یہ نظام فراہم کرسکتاہے ،پاکستان نے حالیہ سالوں میں برآمدی کنٹرول کے نظام کومضبوط بنایاہے اورپاکستان این ایس جی اوردیگربرآمدی کنٹرول اداروں کارکن بننے کااہل ہے اوراس سے غیرجانبدارانہ سلوک ہوناچاہئے۔

جوہری توانائی کانفرنس نے ایٹمی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افزودہ یورینئیم کے انبار کم کرکے جوہری توانائی القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں،جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ جوہری سلامتی یقینی بنانے کے لیے قومی و عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے، جوہری سلامتی یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر تیاری ،موثر نگرانی اورعالمی تعاون ناگزیر ہے ، پاکستان جوہری مقاصد کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اورعالمی برداری کے ساتھ جوہری سلامتی اورتحفظ کے لیے ملکرکام کررہاہے،پاکستان کا جوہری سلامتی کا نظام پانچ ستونوں پر مشتمل ہے جس میں نیشنل کمانڈاتھارٹی کے تحت مربوط کمانڈ اینڈکنٹرول نظام موجود ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے تہہ درتہہ نظام بھی جومود ہے، جوہری موادتنصیبات اورممکنہ تابکاری سے بچاؤکے لیے سخت حفاظتی نظام موجودہے ،جوہری برآمد ات کے بارے میں پاکستان کا نظام نیوکلیئر سپلائرز کے عین مطابق ہے جس کے بعد دوروزہ جوہری عدم پھیلاؤ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی ،گلی جوہری عدم پھیلاؤکانفرنس 2016میں امریکی شہر شگاگومیں ہوگی،منگل کو ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں جاری جوہری عدم پھیلاؤکے حوالے سے کانفرنس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیے میں کہاگیاکہ اعلی افزودگی کے یورینیئم والے ذخائرکم کیئے جائیں اورایٹمی ہتھیارواریورینئیم کو کم افزدوگی والی یورینئیم میں تبدیل کیاجائے،اجلاس میں شریک 35ممالک نے عزم ظاہرکیاکہ وہ جوہری تحفظ کے عالمی ضوابط کو ملکی قوانین میں تبدیل کریں گے،ان ممالک میں اسرائیل،قازقستان اورترکی شامل ہیں جبکہ سمجھوتے میں روس،چین،بھارت اورپاکستان شامل ہیں ،تیسری جوہری کانفرنس کے اختتام پر پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہاگیاکہ جوہری سلامتی قومی ذمہ داری ہے،پاکستان جوہری مقاصد کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اورعالمی برداری کے ساتھ جوہری سلامتی اورتحفظ کے لیے ملکرکام کررہاہے،جوہری سلامتی کانفرنس شرکاء کو فیصلوں پر عملدرآمد کا موقع فراہم کرتی ہے،بیان میں کہاگیاکہ جوہری سلامتی کا عالمی نظام موجود ہے اس لیے متوازی نطام وضع کرنے کی ضرورت نہیں،پاکستان کا جوہری سلامتی کا نظام پانچ ستونوں پر مشتمل ہے جس میں نیشنل کمانڈاتھارٹی کے تحت مربوط کمانڈ اینڈکنٹرول نظام موجود ہے اوراس کے ساتھ ساتھ جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے تہہ درتہہ نظام بھی جومود ہے،بیان میں کہاگیاکہ جوہری موادتنصیبات اورممکنہ تابکاری سے بچاؤکے لیے سخت حفاظتی نظام موجودہے ،جوہری برآمد ات کے بارے میں پاکستان کا نظام نیوکلیئر سپلائرز کے عین مطابق ہے کانفرنس کے موقع پر غیررسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہاکہ جوہری سلامتی یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر تیاری ،موثر نگرانی اورعالمی تعاون ناگزیر ہے ،،انہوں نے کہاکہ ہمیں جوہری سلامتی سے متعلق 2016اوراس سے آگے پیش بندی کرنا ہوگی ،گزشتہ چارسال میں جوہری سلامتی کے تینوں اجلاسوں میں اہم پیشرفت ہوئی،آنے والے وقت میں سیاسی عزم اوربھر پور توجہ کے ساتھ جوہری تحفظ کا ایجنڈاآگے بڑھانا ہوگا ،انہوں نے واضح کیاکہ جوہری سلامتی قومی ذمہ داری ہے ،وزیراعظم نے اس با ت پر خوشی کا اظہارکیاکہ امریکی صدربراک اوباما 2016میں جوہری سلامتی کانفرنس کی میزبانی کریں گے اس کانفرنس کا آغاز امریکا نے کیاتھا اور اس کا اختتام بھی اب امریکا میں ہوگا،انہوں نے کہاکہ 2016کے بعد جوہری توانائی عالمی ادارے کے تمام رکن ملکوں کو جوہری سلامتی کے اجلاسوں کی پاسداری یقینی بنانا ہوگی،ہمیں آئی اے ای اے کے ساتھ ملکر یہ تاثرزائل کرنا ہے کہ جوہری سلامتی کے اجلاس عالمی ادارے پر دباؤ ڈال رہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہم کوئی متوازی نطام رائج نہیں کررہے،ہمیں 2016کے بعد جوہری سلامتی سے متعلق عالمی اداروں کے درمیان قریبی تعاون کو فروخ دینا ہے اس سلسلے میں جوہری توانائی کا عالمی ادارہ کرداراداکرسکتاہے ،اختتامی سیشن سے خطاب میں میزبان ملک ہالینڈ کی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایٹمی دہشت گردی کی روک تھام پوری دنیا کا معاملہ ہے ،امریکی صدرباراک اوباما کاکہنا تھا کہ کانفرنس کا اہم نکتہ باتیں نہیں بلکہ اقدامات ہیں۔

امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا کہ جوہری تحفظ کانفرنس2016ء شکاگو میں منعقد ہوگی