کراچی،تھر میں قحط سے اموات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت، محکمہ صحت، خوراک ، ریلیف اور چیف سیکرٹری سندھ کی رپورٹ جمع کرادی گئی،سندھ حکومت نے ریلیف کمشنر ، کمشنر میرپورخاص اور ڈپٹی کمشنر الزمان کو قحط کا ذمہ دار قرار دیدیا،عدالت نے مذکورہ افسران کو 8اپریل تک طلب کر لیا، تھر میں حکومتی ریلیف کے کاموں کا جائزہ لینے کے لئے 3رکنی کمیٹی قائم

بدھ 26 مارچ 2014 06:53

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26مارچ۔ 2014ء)سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فاروق چنہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر تھر میں قحط سے اموات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں محکمہ صحت، محکمہ خوراک ،محکمہ ریلیف اور چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے رپورٹ جمع کرادی گئی۔سندھ حکومت نے ریلیف کمشنر لالا فضل الرحمان، کمشنر میرپورخاص غلام مصطفی پھل اور ڈپٹی کمشنر میرپور خاص مخدوم عقیل الزمان کو قحط کا زمہ دار قرار دے دیا،عدالت نے مذکورہ افسران کو 8اپریل تک طلب کرتے ہوئے تھر میں حکومتی ریلیف کے کاموں کا جائزہ لینے کے لئے سیشن جج تھرپارکر کی سربراہی میں3رکنی کمیٹی قائم کر دی۔

منگل کوسندھ ہائی کورٹ میں تھر کی صورتحال پرازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکریٹری خوراک نے کہا کہ 22 ہزار587 خاندانوں میں تاحال ریلیف کا سامان نہیں پہنچ سکا۔ عدالت نے تمام رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے اب تک گندم کی تقسیم کا کوئی فارمولا نہیں بنایا گیا، پیش کی جانے والی رپورٹس میں ہزاروں سوال اٹھتے ہیں لیکن افسوس ہے ان سوالوں کا کوئی جواب دینے والا نہیں ہے۔

یہ سندھ کے عوام کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے تھر کے 22 ہزار خاندانوں کو فوری گندم فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ تھر میں زیادہ تر اموات خوارک کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے عدالت کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ افسران تو موجود ہیں لیکن وہ زیادہ تر وقت کراچی اور حیدرآباد میں گزارتے ہیں، افسران پوری رات جاگتے ہیں جب کہ دن کے وقت سوتے رہتے ہیں۔

بار ایسوسی ایشن کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ تھر میں اموات کی وجہ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت میں دیئے گئے احکامات میں کسی ایک پر عمل نہیں کیا گیا۔گندم 6ماہ تک گوداموں میں سڑتی رہی اور تھر کے لوگ بھوک سے مرتے رہے۔چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری خوراک نصیر جمالی نے بتایا کہ محکمہ خوراک کا کام گندم کو گودام کی حد تک محفوظ رکھنا ہے۔

لوگوں میں اس کو تقسیم کرنا محکمہ ریلیف کا کام ہے۔23جنوری کو وزیرا علیٰ سندھ کی جانب سے احکامات دیئے گئے کہ تھر میں 60ہزار گندم کے تھیلے تقسیم کیے جائیں۔ایک ہفتے میں 21ہزار تھیلے تقسیم کیے گئے۔باقی دو ہفتے میں تقسیم کرنے تھے۔دوران سماعت چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری خوراک اور سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گندم کی تقسیم اور ریلیفک ے طریقہ کار پر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو مجبور کیا جارہا ہے کہ سخت احکامات جاری کرے۔

قحط اور اس سے نمٹنے کے اسباب سے آگاہ کیا جائے ورنہ ہم ایسا کمیشن تشکیل دیں گے جو حکومتی خامی کو سب کے سامنے رکھ دے گا۔سیکرٹری صحت اقبال درانی نے عدالت کو بتایا کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات ڈاکٹرز کئی بار شوکاز نوٹس جاری کرنے کے باوجود اپنی ڈیوٹیوں پر نہیں آئے۔اس لیے 99ڈاکٹروں کے خلاف اخبارات میں اشتہار ات دے دیے گئے ہیں۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تھر میں تعینات 35ڈاکٹروں میں سے 34ڈاکٹروں کو تعلق تھر سے ہے۔

لیکن وہ تمام ڈاکٹرز کراچی اور حیدر آباد کے علاقوں میں ڈیوٹی دے رہے ہیں۔عدالت نے چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ تھر کے حوالے سے ڈی آئی جی حیدر آباد ثناء االلہ عباسی کی فیکٹس اینڈ فگرز پر مشتمل رپورٹ عدالت میں کیوں پیش نہیں کی گئی۔اگلی سماعت پر وہ رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے۔سیکرٹری صحت نے بتایاکہ تھر کے 6اسپتالوں میں 71ڈاکٹر ز جبکہ 22موبائل ہیلتھ یونٹ کام کررہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ہمیں تھر کے حوالے سے اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے اگر حکومت کی جانب سے کوئی کوتاہی برتی گئی ہے تو ہم آرڈر کریں گے کہ وہ کوتاہیاں بھی دور ہوجائیں گی اور اگر ضرورت پڑی تو آرمی کو بھی ریلیف کے کاموں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ عدالت میں بتایا گیا کہ تھرپارکر میں قحط کے ذمہ دار 3 افسران ہیں جنہیں عدالت نے 8 اپریل کو طلب کرلیا۔افسران میں ریلیف کمشنر لالا فضل الرحمان، کمشنر میرپورخاص غلام مصطفی پھل اور ڈپٹی کمشنر میرپور خاص مخدوم عقیل الزمان شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے تھر میں حکومتی ریلیف کا جائزہ لینے کے لئے تھر پارکر کے سیشن جج کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن قائم کردیا جو صحت اور خوراک سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرے گا۔