حکومت نے نجی پاور پلانٹس اور پی ایس او کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کی منظوری کے بغیر سرکاری خزانے سے ادائیگیاں کیں شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کو مستعفی ہونا پڑا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا پی اے سی میں انکشاف، پی اے سی نے معاملے پر سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا ، کمیٹی نے نجی پاور پلانٹس کو بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے 40ارب روپے ایڈوانس میں دینے کے معاملے کو نمٹا دیا، این ٹی ڈی سی کی جانب سے غیر ضروری طور پر 5ارب 33کروڑ روپے کے سامان کی خریداری کے معاملے پر اشیاء کی تفصیلی فہرست طلب کرلی،کمیٹی نے کمپنی آرڈیننس اور وزارت خزانہ کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی

جمعہ 28 مارچ 2014 07:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28مارچ۔ 2014ء)قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے نجی پاور پلانٹس اور پی ایس او کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کی منظوری کے بغیر سرکاری خزانے سے ادائیگیاں کی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کو مستعفی ہونا پڑا،یہ غیر قانونی ادائیگیاں مستقبل میں بڑا مسئلہ بنے گا،پی اے سی نے اس معاملے پر سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا جبکہ کمیٹی نے نجی پاور پلانٹس کو بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے 40ارب روپے ایڈوانس میں دینے کے معاملے کو نمٹا دیا اور این ٹی ڈی سی کی جانب سے غیر ضروری طور پر 5ارب 33کروڑ روپے کے سامان کی خریداری کے معاملے پر اشیاء کی تفصیلی فہرست طلب کرلی،کمیٹی نے کمپنی آرڈیننس اور وزارت خزانہ کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز کمیٹی کا اجلاس چےئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا،اجلاس میں وزارت پانی وبجلی کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا،کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ دوبےئر کھواڑ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں دیواروں کی تعمیر کے 6ٹھیکے دئیے گئے جس میں 99لاکھ99ہزار کے 3ٹھیکے قواعد وضوابط کے خلاف دئیے گئے،ہمیں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی کی وجہ سے جلدی میں ٹھیکے دئیے گئے مگر ایمرجنسی میں613دن کی تاخیر کی گئی،وزارت کے حکام نے بتایا کہ 2010ء میں سیلاب آئے اور بڑا سیلاب آیا اس لئے جلدی میں یہ ٹھیکے دینے پڑے،ہمارے 4لوگ بھی مرگئے،کمیٹی نے معاملے کو نمٹا دیا،آڈٹ حکام نے بتایا کہ آلائی کھواڑ ہائیڈرو پاور منصوبے میں تعمیر کے ٹھیکے میں17 کروڑ روپے کا اضافی خرچہ ہوا،حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے محکمانہ انکوائری ہوئی ہے تاہم اس پر اعتراضات تھے،یہ انکوائری دوبارہ کروائی جارہی ہے کہ ڈیزائن خراب تھا یا کیا مسائل تھے کہ ٹھیکیدار کام چھوڑ کر بھاگ گیا،آڈٹ حکام نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ٹھیکیدار نے کام مکمل کیوں کیا اور اس کی وجہ سے حکومت کو اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑے،انہوں نے کہا کہ واپڈا کی انکوائری پر حکام کو اعتراض کیوں ہوتا ہے،ان کی انکوائریاں کیوں درست نہیں ہوتی ہیں،کمیٹی نے ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ دینے کی ہدایت کردی ہے،آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2007-11ء تک قواعد وضوابط کے خلاف49گاڑیاں11کروڑ26لاکھ روپے میں خریدی گئیں اور گاڑیوں کے لئے 60لاکھ روپے زیادہ رقم ادا کی گئی،ایم ڈی این ٹی ڈی سی نے بتایا کہ خریدی گئی گاڑیوں میں زیادہ تعداد سوزوکی جیپ کی ہیں کمیٹی نے گاڑیوں کی خریداری کے حوالے سے انکوائری رپورٹ طلب کرلی ہے،کمیٹی نے نجی پاور پلانٹس اور پی ایس او کو ادائیگیوں کے معاملے پر آڈیٹر جنرل نے کہا کہ قانون ہے کہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس کے آڈٹ کے بغیر سرکاری خزانہ سے ایک روپیہ بھی ادا نہیں ہوسکتا،وزارت خزانہ کا کام نہیں کہ سٹیٹ بینک کو براہ راست ادائیگی کا کہے،سٹیٹ بینک نے خزانہ کے کہنے پر ادائیگی کرکے بہت غلط کام کیا ،شاید اسی وجہ سے گورنر اسٹیٹ بینک کو استعفیٰ دینا پڑا،اس قسم کی ادائیگی غیر قانونی ہے ،مستقبل میں یہ بڑا مسئلہ بنے گا،کمیٹی نے وضاحت کے لئے سیکرٹری خزانہ کو طلب کرلیا،آڈٹ حکام نے بتایا کہ پیپکو سے80کروڑ20لاکھ وصول کرنے ہیں،وزارت خزانہ نے براہ راست پی ایس او کو80کروڑ20لاکھ روپے ادا کردئیے،آڈیٹر جنرل نے کہا کہ مختلف منصوبوں کے فنڈز دوسرے منصوبوں میں دینے کے باعث ہی سرکلرڈیٹ بن جاتا ہے،کمیٹی نے جاپان پاور جنریشن لمیٹڈ اور ایم ایس سوتھرن الیکٹریکل پاور کمپنی کو2011ء تک پاور پرچیز معاہدے کے خلاف40ارب75کروڑ روپے ایڈوانس میں ادا کئے،حکام نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کیلئے کہا تاکہ بجلی کا بحران ختم کیا جائے،تاہم ان دونوں کمپنیوں نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس لئے نہیں چلا سکتے،ان پاور جنریشن سے پیداوار حاصل کرنے کیلئے ان کو ایڈوانس میں رقم دینا پڑی،اراکین نے کہا کہ جب اتنی رقم ایڈوانس میں دی گئی تو مالکان نے گھر ہی جانا تھا،کمیٹی نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے ایڈوانس ادائیگی کرنے پر معاملے کو نمٹا دیا،آڈیٹر جنرل نے کہا کہ معاہدے میں ایڈوانس رقم دینے کی کوئی بات نہیں ہے،جب حکومت ٹیرف پر بات کر رہی تھی تو بہتر قیمت طے کر دیتی،کمیٹی کو بتایا گیا کہ این ٹی ڈی سی نے5ارب روپے سے زائد کا سامان خریدا جو کئی سال گزرنے کے باوجود استعمال نہیں ہوا،کمیٹی نے سامان کی تفصیلی فہرست طلب کرلی ہے،چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس غریب ملک کا پیسہ اس طرح خرچ کیا جارہا ہے،سامان کی ضرورت ہی نہیں ہے مگر پھر بھی کروڑوں کا سامان خرید لیا ہے،اس سامان کے استعمال کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے یا نہیں،ایک اور اعتراض پر کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ2008ء میں این ٹی ڈی سی نے غیر ضروری سامان33کروڑ روپے کا خریدا،اس سامان کی ضرورت نہیں تھی،کمیٹی نے رکن کمیٹی میاں منان کو کہا کہ وہ این ٹی ڈی سی کے سٹورز میں جاکر سامان چیک کریں،آڈٹ حکام نے بتایا کہ2010-11ء میں این ٹی ڈی سی نے وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر14 کروڑ29لاکھ روپے کے الاؤنسز غیر قانونی طور پر یہ ملازمین کو دئیے،اس معاملے میں اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری بھی کلےئر نہیں ہیں،کمیٹی نے معاملہ مؤخر کردیا،کمیٹی نے این ٹی ڈی سی کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا،کمیٹی نے کمپنی آرڈیننس اور وزارت خزانہ کے تنازعات نمٹانے کے لئے عارف علی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو تمام متعلقہ حکام کو بلاکر معاملات طے کرے گی۔

متعلقہ عنوان :