غداری کیس میں پرویز مشرف پر فرد جرم عائد، سابق صدر کا صحت جرم سے انکار،کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس سے غداری کے مرتکب قرار پاو ں ، ملک کے خفیہ راز بیچنے یا ملک کے دفاع کو داؤ پر لگانے کا اقدام غداری ہوسکتا ہے،پرویز مشرف، میر ی نظر میں ملکی خزانوں کو لوٹنے اور کرپشن کے ذریعے عوام کو بدحالی و بربادی دینا غداری ہے،سابق صدر کا عدالت میں بیان،مشرف کی بیرون ملک روانگی بارے خصوصی عدالت نے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی، پرویز مشرف کا نام وفاقی حکومت نے ای سی ایل میں ڈالا عدالت نے نہیں،وفاقی حکومت ہی نام ای سی ایل سے خارج اور بیرون ملک جانے کی اجازت دے سکتی ہے،عدالت کا فیصلہ، پرویز مشرف کو پیشی سے استثنیٰ دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی گئی

منگل 1 اپریل 2014 06:21

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اپریل۔2014ء )سابق فوجی آمرپرویز مشرف کیخلاف تین نومبر2007ء کے غیر قانونی اقدامات کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت قائم کئے گئے سنگین غداری کے مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف تین رکنی خصوصی عدالت نے فرد جرم عائد کردی ،تاہم ملزم پرویز مشرف نے صحت جرم قبول کرنے سے انکار کیا ہے ،پانچ الزامات پر مشتمل فرد جرم کی چارج شیٹ خصوصی عدالت کی جج جسٹس طاہرہ صفدر نے پڑھ کر سنائی جبکہ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس سے وہ غداری کے مرتکب قرار پائیں کیونکہ ان کی نظر میں ملک کے خفیہ راز بیچنے یا ملک کے دفاع کو داؤ پر لگانے کا اقدام تو غداری ہوسکتا ہے مگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ، ملکی قرضوں کا حجم کم کرنے ، آئی ایم ایف کو خیر باد کہنے ، بے روزگاری و جہالت کا خاتمہ کرنے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کی بنیاد رکھنا غداری نہیں جو انہوں نے اپنے آٹھ سال دور اقتدار میں کیا ہے ،خصوص عدالت نے پرویز مشرف کی طرف سے اپنی علالت کے باعث بیرون ملک روانگی کیلئے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو آج دن دو بجے سنایا جائے گا تاہم مقدمہ کے پراسکیوٹر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی طرف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خصوصی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیا جائے ۔

(جاری ہے)

پیر کے روز غداری مقدمہ کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں شروع کی تو مقدمہ کے واحد اور مرکزی ملزم پرویز مشرف اپنے نئے وکیل فروغ نسیم کے ہمراہ عدالت میں موجود تھے ۔سماعت شروع ہوئی تو پرویز مشرف نے عدالت کو بتایا کہ ان کی وکالت بیروسٹر فروغ نسیم کرینگے جس کے بعد عدالت نے سماعت کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے پرویز مشرف کو روسٹرم پر طلب کیا جہاں خصوصی عدالت کی جج جسٹس طاہرہ صفدر نے پرویز مشرف پر فرد جرم کی چارج شیٹ پڑھنا شروع کی ۔

چارج شیٹ کا پہلا الزام یہ تھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا نفاذ کرکے آئین توڑا اور بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جس پر پرویز مشرف نے مذکورہ الزام قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ” آئی ایم ناٹ گلٹی“ اس کے بعد طاہرہ صفدر نے چارج شیٹ کا دوسرا الزام پڑھا کہ آپ نے20نومبر2007ء اور 14دسمبر2007ء کو آئین پاکستان میں غیر قانونی طور پر ترامیم کیں جو غیر آئینی اقدام تھا اس پر بھی پرویز مشرف نے مذکورہ جواب دوہرایا اور الزام قبول کرنے سے انکار کیا ۔

اس کے بعد پرویز مشرف پر چارج شیٹ کا الزام پڑھا گیا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کیلئے پی سی او اجراء کیا اور پی سی او کے تحت ججز کو حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا اور حلف نہ اٹھانے والے ججز کو معزول کردیا گیا ۔ اس الزام کو بھی پرویز مشرف نے قبول کرنے سے انکار کیا اس کے بعد پرویزمشرف پر جسٹس طاہرہ صفدر نے چوتھا الزام پڑھا کہ پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر معزول کرکے گھر بھیجا گیا اور ججز کو گھروں میں نظر بند کیا گیا جبکہ پانچواں الزام تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی اور آئین معطل کرنے کا الزام پڑھا گیا جس کو قبول کرنے سے پرویز مشرف نے انکار کرتے ہوئے وہی جملہ دوبارہ دوہرایا ” آئی ایم ناٹ گلٹی“۔

فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد پرویز مشرف نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اجازت ملنے پر پرویز مشرف نے کہا کہ وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ غدار کون ہوتا ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کی نظر میں غدار کون ہے اس کا جواب دیتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ میری نظر میں غدار وہ شخص ہے جو ملک کے خفیہ راز بیچے اور ملک کے دفاع کو داؤ پر لگادے دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دے مگر میں نے ان میں کوئی ایسا اقدام نہیں کیا میرا تعلق سپیشل سروسز گروپ سے ہے جس نے غازی یا شہید ہونے کو ترجیح دی ہے میں نے اپنی زندگی کے 44برس پاک فوج اور اس ملک کو دیئے اپنی سروس کے دوران تین مختلف جنگیں 1965ء ،1971ء اور 1999ء کارگل جنگ میں پاکستان کا دفاع کیا شب و روز اپنے سپاہیوں کے ساتھ اگلے محاذوں پر گزارے جس کا اعتراف بھارتی جرنیلوں نے بھی کیا ۔

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں غدار وہ شخص بھی ہے جو ملکی خزانوں کو لوٹے ، عوام کو بدحالی دے اور کرپشن کے ذریعے اپنے ذاتی خزانوں کو بھرے عوام کوپسماندگی ، تباہی اور بربادی دے کر جانے والا ہر شخص غدار قوم و غدار وطن ہے ۔ میں معزز عدالت کو اور معزز پراسکیوشن کواور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور اپنی بوڑھی ماں اور اپنے بچوں کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں اس ملک کا ایک پیسہ بھی مجھ پر حرام ہے نہ کبھی رشوت لی اور نہ کسی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ مجھے رشوت کی پیشکش کرسکے جن لوگوں نے 2008ء کے بعد اس ملک میں حکومت کی وہ پوری قوم کے سامنے ہے ،2008ء میں جب ہم گئے تھے تو قومی خزانے میں 17ارب ڈالر موجود تھے اب میرا نہیں خیال کہ تین یا چار ارب ڈالر بھی ہونگے اور ریکارڈ منگوا کر یہ چیک کیا جاسکتا ہے سوال یہ ہے کہ گزشتہ پانچ چھ برس میں اتنی رقم کہاں گئی ۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008ء میں 13ارب ڈالر صرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ملکیت تھے جو اب دو یا تین ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہونگے اس وقت ملکی قرضے 37ارب ڈالر تھے جو اب بڑھ کر 70ارب ڈالر سے بھی اوپر چلے گئے ہیں صرف پانچ چھ برس میں 70ارب ڈالر کا قرض لیا گیا اور قومی خزانے کو بری طرح لوٹا گیا کیا یہ لوگ غدار وطن نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو ملکی قرضوں کا حجم چالیس ارب ڈالر تھا اور ہر سال ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر قرض لیا جاتا تھا مگر ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد قرضے کم ہوئے اور یہ ملکی تاریخ کی پہلی حکومت تھی جس نے آٹھ سال کے دوران چالیس ارب سے قرضوں کو کم کرکے 37ارب ڈالر پر لایا آئی ایم ایف کو خیر باد کردیا گیا بیرونی قرضے کم کئے گئے ملک میں خوشحالی لائی گئی ۔

میں معزز عدالت سے سوال کرتا ہوں کہ کہاں ہے اسلامی ریپلک آف پاکستان کا عدل و انصاف ؟ آپ اس عدل و انصاف کی عدالت کے عادل ہیں آپ فیصلے کریں میں نے ملک کو سب کچھ دیا اور اس ملک سے کچھ نہیں لیا 3سو ملین ڈالر سے 70ارب ڈالر تک ملکی خزانوں کو لیکر گیا ڈالر کو 60روپے تک رکھا ملکی معیشت کو مضبوط کیا ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام رکھا ، مہنگائی کو کنٹرول کیا ، انڈسٹری ، آئی ٹی کمیونیکشنز ، میڈیا ، تعلیم ، صحت ، بنیادی انفراسٹرکچر سمیت ہر شعبے میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کئے میڈیا کی آزادی آپ کے سامنے ہے ، بے روزگاری کی شرح کم کی ، تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا ، پاکستان کے ہر کونے میں ترقیاتی کام کروائے گئے اور غریب کے چولہے کو روشن رکھا یہ میرے فیگر نہیں ورلڈ بینک کے فیگر ہیں کہ اس آٹھ سالہ دور میں پاکستان نے ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ ترقی ہوئی بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوئی اور تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا کیا یہ غداری ہے ؟ اس وقت آپ کے پاس الخالد ٹینک ، جے ایف 17تھنڈر طیارے ، نیوی کے پاس جدید آبدوزیں ، ائر فورس کے پاس جدید اسلحہ اس کے علاوہ نیوکلیئر میزائل ٹیکنالوجی جس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا یہ سب کچھ اس ملک کو دیا اس سے پہلے ہم نے صرف دو غوری میزائلوں کے تجربے کئے تھے ۔

ایٹمی اثاثوں کو محفوظ بنانے کیلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی سمیت متعدد ادارے قائم کئے میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی کو اس قابل بنایا کہ کوئی بھی ملک آپ کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سے ۔ تمام عدالتی تقرریاں میرٹ پر کی میرا چیلنج ہے کہ اگر سوشو اکنامک ڈویلپمنٹ کے حوالے سے کسی بھی اور دور سے میرے دور کا موازنہ کریں تو میرا دور سب پر بھاری ہوگا میں چیلنج کرتا ہوں کہ میرے آٹھ سالہ دور کی ترقی 60سالہ دور کی ترقی اور خوشحالی پر بھاری ہوگی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔

انہوں نے خصوصی عدالت کی جج جسٹس طاہرہ صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں معزز جج صاحبہ کو ان کے صوبے بلوچستان کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں کہ میرے دور میں بلوچستان میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی بلوچستان کا بجٹ پنجاب کے بجٹ سے زیادہ رکھا ، گوادر پورٹ قائم کی ، بلوچستان کو پاکستان کے ہر کونے کے ساتھ جوڑا ، کوسٹل ہائی وے کی بنیاد رکھی تمام چھوٹی بڑی سڑکوں کا قیام عمل میں لایا بلوچستان کے ژوب اور کے پی کے سے منسلک کیا ڈیمز بنائے ، نکاسی آب اور آبنوشی کی سکیمیں دیں ، سینکڑوں میٹر لمبی نہریں قائم کیں ،9یورنیورسٹیز ،7کیڈٹ کالج اور متعدد دیگر تعلیمی ادارے قائم کئے اور میرے دور میں جو بلوچستان میں ترقی ہوئی ہے وہ پاکستانی تاریخ میں نہ کبھی پہلے ہوئی نہ میرے دور کے بعد ہوئی اور یہ لوگ بلوچستان میں اس طرح کی خوشحالی لاسکتے ہیں ۔

میرا سوال ہے ؟ کون کہتا ہے کہ میں نے بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی ہے ؟ انہوں نے مزید کہا کہ 3نومبر 2007ء کا اقدام انہوں نے وزیراعظم اور کابینہ کے مشورے کے ساتھ تمام شراکت داروں کی مشاورت کے ساتھ کیا نہ تو یہ آئین شکنی ہے اور نہ ہی یہ غداری ہے میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ اس عدالت نے مجھے بولنے کا موقع فراہم کیا ۔ اس کے بعد پرویز مشرف اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور اکرم شیخ نے روسٹم پر آکر کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پرویز مشرف کی والدہ کو جلد صحت یاب کرے کیونکہ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو کسی نے غدار نہیں کہا اور کسی نے پرویز مشرف پر یہ الزام نہیں لگایا کہ انہوں نے کرپشن کی ہے اور ملکی خزانوں کو لوٹا ہے پرویز مشرف پر صرف دستور شکنی کا مقدمہ ہے تاہم 3نومبر 2007ء کے اقدام میں پرویز مشرف نے جن لوگوں کا نام لیا ہے ان کیخلاف ثبوت فراہم کرنا ان کا کام ہے اگر ثبوت فراہم کئے گئے تو ہم اس کو ریکارڈ پرلائینگے اور ان شخصیات کو شامل تفتیش کرینگے مگر سرکاری ریکارڈ کے مطابق پرویز مشرف کے علاوہ کسی شخص کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ الزام بھی نہیں لگایا کہ پرویز مشرف نے ملکی راز فاش کئے یا بیچے ہیں صرف ایک نقطہ عدالت کے سامنے ہے جو دستور شکنی کا ہے اور یہ مقدمہ کرپشن یا قومی خزانوں کو لوٹنے کیخلاف نہیں بلکہ بطور صدر دستور شکنی اور آئین شکنی کا مقدمہ ہے انہوں نے پرویز مشرف کی طرف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے خصوصی عدالت کے 31جنوری 2014ء کے حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت خود اپنے گزشتہ فیصلے میں یہ کہہ چکی ہے کہ جس عدالت کے کہنے پر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے انہیں اسی عدالت سے رجوع کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ خصوصی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی یہ عدالت محدود اختیارات کی مالک ہے اور اس عدالت کے پاس پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اختیار موجود نہیں لہذا مذکورہ درخواست کو خارج کیا جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کے پاس پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا اختیار موجود نہیں جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اس کیلئے انہیں وزارت داخلہ یا حکومت کو براہ راست درخواست دینا ہوگی ۔

اس کے بعد پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے چار مختلف حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل کے حوالے سے پہلے والا معاملہ عدالتوں نے نمٹا دیا ہے اور اب خصوصی عدالت کے پاس یہ ا ختیار موجود ہے کہ وہ ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے سکے بعد ازاں عدالت نے مذکورہ درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ادھرسابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک روانگی کی اجازت اور ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے اور قرار دیا کہ پرویز مشرف کا نام وفاقی حکومت نے ای سی ایل میں ڈالا ہے اس عدالت نے نہیں اس لئے وفاقی حکومت ہی ان کا نام ای سی ایل سے خارج اور انہیں بیرون ملک روانگی کی اجازت دے سکتی ہے جبکہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو پیشی سے استثنیٰ دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔

پیر کے روز سابق صدر کی طرف سے غداری مقدمہ کی سماعت پر خصوصی عدالت میں دائر کی گئی بیرون ملک علاج کے لئے روانگی کی اجازت دیئے جانے اور ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواستوں پرعدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بعد میں سنایا گیا۔فیصلہ خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے پڑھ کر سنایا جس میں عدالت نے پرویز مشرف کی طرف سے دائر کی دونوں درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سابق صدر بیرون ملک علاج کے لئے اجازت اور نام ای سی ایل سے نکالنے کے اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہیں اگر حکومت چاہے تو ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے سکتی ہے تاہم خصوصی عدالت نے نہ تو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہے اور نہ ہی عدالت ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے سکتی ہے۔

خصوصی عدالت نے پرویز شرف کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیشی سے استثنیٰ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ملزم حراست میں نہیں ہیں اس لئے عدالت ان کی نقل و حرکت پر پابندی نہیں لگا سکتی ہے اور اگر ملزم زیر حراست نہ ہو تو حکومت اسے بیرون ملک روانگی کی اجازت دے سکتی ہے، تاہم کسی بھی ملزم کا نام حکومت ہی ای سی ایل پر ڈالتی ہے اس لئے اس پر نظرثانی کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہے اور عدالت نے نام ای سی ایل سے نکالنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی ۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ خصوصی عدالت ایک خاص قانون کے تحت بنائی گئی ہے اس لئے وہ ای سی ایل سے نام نکالنے جیسے امور پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی۔