خفیہ اداروں کے سربراہ دوسرے ملکوں کے آپریشنل دورے کرتے رہتے ہیں ، سی آئی اے کے ڈی جی نے بھی آپریشن دورہ کیا،سیکرٹری دفاع ،سعودی عرب سے ملنے والی امداد کو وزیر خزانہ نے متنازعہ بنایااور ابہام پیدا کیا،کمیٹی کی رائے، ایران سے جتنے تعلقا ت آج خراب ہیں کبھی نہ تھے،مشاہد حسین کا اظہار تشویش، ایران کو کہا ہے کہ اگر گارڈز کے اغوا میں ہماری سرزمین کے استعمال ہوئی ہے تو معلومات دیمگر کوئی معلومات نہیں دی گئیں،نواز شریف جلد ایران کا دورہ کریں گے،ترجمان دفتر خارجہ، ایران کے وزیر خارجہ نے باورکرایا ہے کہ اگر پاکستان سعودی عرب کے تعلقات بڑھائے گا تو ہم دور ہو جائیں گے، حاجی عدیل

منگل 1 اپریل 2014 06:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اپریل۔2014ء)سیکرٹری دفاع نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا ہے کہ خفیہ اداروں کے سربراہ دوسرے ملکوں کے دورے کرتے رہتے ہیں ،یہ دورے آپریشنل ہوتے ہیں جن کا پالیسی سازی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، سی آئی اے کے ڈی جی نے بھی دورہ کیا جبکہ کمیٹی نے کہا کہ سعودی عرب سے ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے متنازعہ بنایا ہے اور اس حوالے سے عوام میں ابہام ڈالا ہے۔

رکن کمیٹی مشاہد حسین سید نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایران سے جتنے تعلقا ت آج خراب ہیں کبھی نہ تھے اور ترجمان وزارت خارجہ نے بتایا کہ ہم نے ایران کو کہا ہے کہ اگر آپ کو اس حوالے سے ہماری سرزمین کے استعمال ہونے کے حوالے سے کوئی معلومات ملے تو ہمیں دی جائیں مگر ایران کی جانب سے پاکستان کو کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔

(جاری ہے)

نواز شریف جلد ایران کا دورہ کریں گے اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے ۔

سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ کا بیان زیادہ سخت تھا اور یہ باور کراناا چاہتے تھے اگر پاکستان سعودی عرب کے تعلقات بڑھائے گا تو ہم دور ہو جائیں گے ۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں حاجی عدیل کی صدارت میں ہوا۔سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر)آصف یاسین نے کمیٹی کو سی آئی اے کے ڈی جی کے دورہ پاکستان پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ خفیہ اداروں کے چیف کے دوسرے ممالک میں دورے معمول کی بات ہے ۔

یہ دورے آپریشنل ہوتے ہیں اور پالیسی بنانے کے معاملے پر ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان کے بہت سے خفیہ اداروں کے ساتھ تعان چل رہا ہے اور ہمارے خطے میں حالات کشیدہ ہیں اس لئے امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے پاکستان کا دورہ کیا ۔انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کے دوران جو آپریشنل ایشوز زیر بحث آئے ہمیں ان کا علم نہیں اور نہ ہی ہمیں پتہ ہونا چاہیے ۔

اجلاس کے دوران ایڈیشنل سیکرٹری نائلہ چوہان نے بتایا کہ بحرین کے شاہ وزیر دفاع بھی ہیں اور بحرین افواج کے سربراہ بھی ہیں ان کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات ہیں ۔دس ہزار پاکستانی بحرین کی افواج میں کام کررہے ہیں۔ان کی خواہش پر انہیں جی ایچ کیو میں بریفنگ دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان جی سی سی ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ کررہاہے اس لئے بحرین اور سعودی عرب کے شاہ نے دورہ پاکستان کے دوران ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے پر پاکستان کی حمایت کریں گے جبکہ یو اے ای کے وزیر خارجہ نے بھی دورہ پاکستان کے دوران پاکستان کے سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت پاکستان سے ایران کے ساتھ جتنے تعلقات خراب ہیں اس سے قبل پہلے کبھی نہیں ہوئے ۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایران سرحد پر بارڈر گارڈز کے لاپتہ ہونے کی اقوام متحدہ سے شکایت کی ہے؟ تو ترجمان تسنیم اسلم نے بتایا کہ ایران نے پاکستان کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی ۔ایرانی سرحد پر بارڈر گارڈز کے گم ہونے کے حوالے سے خط میں پاکستان کے ذمہ دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ۔

خط میں ذکر کیا گیا کہ پاک ایران سرحد سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہمارے گارڈ اٹھائے گئے ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ ہم نے ایران کو کہا ہے کہ اگر آپ کو اس حوالے سے ہماری سرزمین کے استعمال ہونے کے حوالے سے کوئی معلومات ملے تو ہمیں دی جائیں مگر ایران کی جانب سے پاکستان کو کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔ترجمان نے کہا کہ ایران میں پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب نہیں کیا گیا بلکہ دعوت دی گئی تھی اور کئی امور پر بات چیت ہوئی جن میں سے ایک مسئلہ ایرانی بارڈر گارڈ کی گمشدگی کا بھی زیر بحث آیا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف جلد ایران کا دورہ کریں گے اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے تاہم ابھی شیڈول طے نہیں ہوا ۔سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ کا بیان زیادہ سخت تھا اور یہ باور کراناا چاہتے تھے اگر پاکستان سعودی عرب کے تعلقات بڑھائے گا تو ہم دور ہو جائیں گے ۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جو وضاحتی بیان دیا گیا ہے کہ اس میں کہاگیا ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی اسلحہ نہیں بھیجا جائیگا لیکن اس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ سرکاری سطح پر نہیں اسلحہ نہیں بھجوایا جائیگا تاہم غیر سرکاری سطح پر کچھ بعید نہیں جیسا کہ رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان سے شام منتقل ہو رہے ہیں ۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہم دفتر خارجہ کو سراہتے ہیں کہ بھارت نے امریکہ کی جانب سے سری لنکا کے خلاف قرار داد لانے پر سری لنکا کا ووٹ نہیں دیا جبکہ پاکستان نے کھل کر سری لنکا کا ساتھ دیا ہے ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ترجمان دفتر خارجہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پہلی مرتبہ سری لنکا کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر ساتھ دیا ہے۔

قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نے کہا ہے کہ سعودی عرب سے ملنے والی ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے متنازعہ بنایا ہے اور اس حوالے سے عوام میں ابہام ڈالا ہے۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیں پیسا دیاہے اچھی بات ہے مگر حکومت کی جانب سے اس معاملہ کو پراسرار بنایا گیا ہے۔پہلے بھی سعودی عرب ہمیں تیل اور پیسے دیتا رہا ہے ہم نے اس کو سراہا ہے۔

اس مرتبہ بھی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے آئے ہیں ۔پھر کہا کہ ایک دوست ملک نے دیئے ہیں۔مگر یہ سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نے پیسے دیئے اور کیوں دیئے۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اگر کوئی اس ملک میں آئے تو سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں آیا؟ ۔اس سے دنیا میں کیا پیغام جائے گا۔ ہم نے جب ایٹمی دھماکہ کیا تھا اس وقت بھی سعودی عرب نے پیسے دیئے تھے تو اس وقت بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا اب کیوں اعتراض کیا جارہا ہے؟۔