مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس، اہم گوا ہ عمران منیر کا بیان ریکارڈ نہ ہو سکا ،یو این ایچ سی آر سری لنکا آفس نے بیا ن ریکا رڈ کروانے سے صاف انکار کردیا،آمنہ مسعود کو حساس اداروں کے افسران پر جرح کے لیے لاپتہ افراد کی بازیابی بارے کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت،ہم نہیں چاہتے کہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے انصاف کے دروازے بند ہوں ،ہمارے اختیارات بھی محدود ہیں ڈاکٹر عمران منیر سکرین سے آؤٹ ہیں وہ وہاں ہیں جہاں سپریم کورٹ کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس، مقدمے کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

منگل 1 اپریل 2014 06:27

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اپریل۔2014ء ) سپریم کورٹ نے مسعود جنجوعہ لاپتہ کیس میں ان کی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ کو حساس اداروں کے افسران پر جرح کرنے کے لیے لاپتہ افراد کی بازیابی بارے کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے اہم گواہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے یو این ایچ سی آر سری لنکا آفس نے صاف انکار کردیا ہے ۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے حوالے سے بہت ہی زیادہ خصوصی اختیارات استعمال کئے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ مسعود جنجوعہ کے حوالے سے انصاف کے دروازے بند ہوں مگر ہمارے اختیارات بھی محدود ہیں ڈاکٹر عمران منیر سکرین سے آؤٹ ہیں وہ وہاں ہیں جہاں سپریم کورٹ کو کوئی اختیار نہیں ہے قانونی راستہ چاہتے ہیں کہ جس پر چل کر ہم مسعود جنجوعہ کو بازیاب کراسکیں جبکہ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی رو سے تمام شہریوں کی آزادی کے حقوق برابر ہیں مسعود جنجوعہ کی بازیابی بارے حساس اداروں کے افسران اور سابق صدر سے بیان حلفی تک منگوایا گیا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں سماعت کے دوران آمنہ مسعود جنجوعہ ، ہارون جوئیہ اورپنجاب کے لاء افسران پیش ہوئے ۔ہارون جوئیہ سے عدالت نے پوچھا کہ عدالتی حکم پر عمل کرلیا ہے اس پر اس نے ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جس کی ایک کاپی آمنہ مسعود جنجوعہ کو بھی دی گئی عمران منیر نے ملنے سے انکار کردیا ہے یو این ایچ سی آر افسر نے کہا کہ وہ ملنے نہیں دے سکتے یہاں کسی کا قانون نہیں چلتا ۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق اے مرزا پیش ہوئے اور انہوں نے پوری رپورٹ پڑھ کر سنائی جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ عدالتی حکم پر آپ نے کیا کیا ہے ؟ عدالت کو بتایاگیا کہ ابھی تک ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے ۔ آمنہ نے کہا کہ بار بار عمران منیر کے بیان کو پڑھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی رزاق اے مرزا نے جولائی 2011ء کا آرڈر پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ مسعود جنجوعہ حساس اداروں کی تحویل میں نہیں ہے بریگیڈئر ریٹائرڈ نصرت نعیم ، عارف سابق سیکرٹری نے بھی بیان حلفی جمع کروایا تھا اطہر علی نے بھی بیان داخل کیا تھا ۔

وزارت دفاع نے بھی بتایا تھا کہ ٹرپل ون بریگیڈ کے پاس بھی مسعود جنجوعہ نہیں ہے ۔ آمنہ مسعود نے آئی ایس آئی سمیت افسران کے بیانات حلفی طلب کرنے کی استدعا کی تھی جس پر انہوں نے بیانات حلفی جمع کروائے تھے ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس طرح کے بہت سے معاملات پر بات ہوچکی ہے آپ نے بھی بیان حلفی پر کہا تھا کہ ہارون جوئیہ کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بھجوایا تھا ۔

عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان کا جائزہ لیا جائے گا ۔ مرزا نے کہا کہ ڈاکٹر عمران منیر نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ویسٹریج میں حساس ادارے کے سیف ہاؤس ہیں انہوں نے مسعود جنجوعہ کی آواز سنی تھی بعد ازاں اس نے بیان بدل لیا اس پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے 9سال گزر گئے ہیں اب ان کے بیان کی کی صورتحال ہوگی اب ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔

مسعود جنجوعہ کی ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ یہ تبلیغ پر گئے تھے ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ مزید دلائل نہ دیں عمران منیر کا بیان ریکارڈ کیا جانا چاہیے ۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ عمران منیر کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اس کا اپنا کورٹ مارشل ہوچکا ہے یہ سزا یافتہ آدمی ہے جسٹس انور نے کہا کہ آپ نے اپنا بیان داخل کرادیا ہے کہ عمران منیر نے ہارون جوئیہ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا ہے جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ اس کو مخالفانہ دلائل نہ دیں ایک چیز اگر پہلے ہوچکی ہے تو دوبارہ بھی ہوچکی ہے 184(3)کے تحت سپریم کورٹ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کررہی ہے کہ ممکن ہے کہ مسعود جنجوعہ مل جائیں ۔

ڈاکٹر عمران منیر سامنے نہیں آرہے یا آرہے ہیں تو ان کو دیکھ لیتے ہیں آمنہ چاہتی ہیں کہ ان کا پتہ چل جائے کہ مسعود جنجوعہ زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ انہوں نے 12 حساس اداروں کے افسران کے نام دیئے تھے جو مسعود جنجوعہ کے حوالے سے ذمہ دار سمجھتی ہیں یہ 18فروری 2014ء کو یہ نام دیئے گئے تھے ۔ عمران منیر کے علاوہ بھی شواہد موجود ہیں عدالت نے کہا کہ اگر عمران منیر بیان نہیں دینا چاہتے تو بتائیں ہم کیا کریں کیا اس معاملے کو روک کر دوسرے شواہد کو دیکھ کر کیا فیصلہ کردیں ؟ آمنہ نے کہا کہ عمران منیر کے بیان کا بھی جائزہ لیا جائے باقی شواہد بھی دیئے جائیں جسٹس انور نے کہا کہ آپ عمران منیر سے بات کرکے پتہ کرلیں کیا وہ اس معاملے میں بیان دینگے ۔

آمنہ مسعود نے بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ شفقات احمد ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم تاج اور کرنل ریٹائرڈ حبیب اللہ کے بیانات حلفی آنا باقی ہیں اس کے بعد ان پر جرح بھی ہونا ہے میں اس وقت تک انتظار کرونگی جب تک حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا کہ یہ کیا کہتے ہیں ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کل آپ چھ نام اور دے دیں گی تو کیا ہم ان سے بیانات حلفی طلب کرینگے ایسا نہ کریں ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم راستہ نکالنا چاہتے ہیں جس میں قانون میں بھی گنجائش ہو ہم پہلے نصرت نعیم یا کسی دوسرے افسر کے بیان حلفی کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ آخر انہوں نے کیا کیا ہے ۔ آمنہ نے کہا کہ جرح کرنے کے حوالے سے وہ اپنا وکیل مقرر کرنا چاہتی ہیں ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ جرح کے لیے ضروری ہے کہ ایک معاملہ آپ کیخلاف جارہا ہو ابھی ایسا وقت نہیں آیا ہم پہلے بیانات حلفی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ۔

آمنہ مسعود نے کہا کہ عدالت خود دیکھ لے بار بار بیان حلفی عدالت میں پڑھ ر میری پریشانی میں اضافہ نہ کیا جائے ۔ میں نے انکوائری کمیشن میں جرح ضرور کی تھی تاہم میرے پاس معلومات بھی کم تھیں اس طرح کا بیان بھی میں نے نہیں دیا تھا یہ پتہ نہیں کہ کہاں سے بیان لیا گیا ؟ وہ میرے خاوند کے حوالے سے بات جانتے ہیں ان کی قبر کے بارے میں کیوں نہیں جانتے ۔

اس دوران عدالت نے نصرت نعیم کے بیان حلفی کا جائزہ لیا اور آپس میں مشاورت بھی کی ۔ جسٹس انور نے کہا کہ آپ کے سسر پاک فوج میں تھے کیا آپ کے خاوند بھی پاک فوج میں تھے اس پر آمنہ نے کہا کہ نہیں وہ کاروباری آدمی تھے ان کا پاک فوج سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ یو این ایچ سی آر سے انکار کے بعد ڈاکٹر عمران منیر کا باب بند ہوچکا ہے آپ کا بیان ریکارڈ کرلیتے ہیں آپ کے مقدمے کو بند نہیں کرنا چاہتے آپ قانونی راستہ بتلا دیں کہ جس پر چل کر فیصلہ کرسکیں ۔

آمنہ نے کہا کہ 28 جولائی 2006ء سے مسعود جنجوعہ آئی ایس آئی کی زیر حراست میں تھے ڈاکٹر عمران منیر کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اس کیس کا حصہ بنایا گیا تھا دس صفحات میں انہوں نے مسعود جنجوعہ کا ذکر کیا ہے ڈاکٹر عمران منیر کا دوسرا بیان 2008ء میں سامنے آیا اس وقت آزاد عدلیہ موجود نہیں تھی 2009ء میں وہ پمز میں زیر علاج تھے عدالتوں کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایس آئی نے ڈاکٹر عمران منیر کا جعلی بیان حاصل کیا اور کمیشن کے روبرو پیش کیا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے یہ بیان ریکارڈ کیا جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب وہ سکرین سے آؤٹ ہیں جہاں ڈاکٹر عمران منیر موجود تھے ہمارا دائرہ اختیار نہیں ہے یو این ایچ سی آر سے ہم کچھ نہیں پوچھ سکتے کیسے ان کا بیان حاصل کریں اب اس انکوائری کمیشن کا کیا نتیجہ نکلا تھا کمیشن کو اقدامات کرنے ہیں اور حقائق کا جائزہ لینے دیا جائے آمنہ نے کہا کہ آپ خود دیکھیں کمیشن نے کچھ بھی نہیں کرنا ہے میں نے 9 سی ایم ایز دائر کررکھی ہیں ان کو پڑھ لیں ۔

جسٹس انور نے کہا کہ عدالت کی اپنی حدود و قیود ہیں آپ کی تجاویز پر بار بار سماعت کرچکے ہیں ہر شہری کی آزادی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے اور برابر کا درجہ رکھتی ہے ہم نے ایس ایس پی کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے آپ نے صدر پاکستان کا بیان حلفی طلب کرایا ہم نے کہا اب ہم مزید کیا کرسکتے ہیں آپ نے تو اداروں کے درمیان تناؤ کی صورتحال پیدا کردی ہے آمنہ نے کہا کہ میرے خاوند مل جائیں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے میں اداروں کے درمیان تناؤ نہیں چاہتی ۔

نصرت نعیم پر جرح کرنا چاہتی ہوں آپ فورم کا انتخاب خود کردیں ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ان پر جرح پہلے بھی ہوچکی ہے بار بار کیسے جرح کی جا چکی ہے اور کمیشن رپورٹ دے چکا ہے جسٹس انور نے کہا کہ آپ کمیشن کے روبرو درخواست دیں وہ نصرت نعیم پر جرح کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرلیں ۔ بعد ازاں عدالت نے حکمنامے تحریر کراتے ہوئے کہا کہ ہارون جوئیہ نے عدالتی احکامات پر سری لنکا ڈاکٹر عمران منیر کا بیان ریکارڈ کرنے گئے تھے مگر یو این ایچ سی آر نے ان کو ڈاکٹر عمران منیر سے ملاقات کرانے سے انکار کردیا آمنہ مسعود جنجوعہ چاہتی ہیں وہ نصرت نعیم اور دیگر افراد پر جرح کریں وہ اس حوالے سے کمیشن کے روبرو درخواست دائر کریں جو اس کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ۔