زیادتی کا شکار بچیاں 4گواہ پیش نہیں کر سکتیں ،زیادتی کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں ،سندھ اسمبلی

منگل 1 اپریل 2014 06:16

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔1اپریل۔2014ء ) سندھ اسمبلی میں پیر کو حکومت اور اپوزیشن نے اس بات پر اتفاق کیا کہ زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم بچیاں 4گواہ پیش نہیں کر سکتی ہیں ، جس کی وجہ سے زیادتی کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں ۔ ایسے درندہ صفت لوگوں کو سزا دینے کے لیے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن لیڈر سید فیصل علی سبزواری نے نکتہ اعتراض پر بتایا کہ کراچی کے علاقے بھیم پورہ میں 5 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور پھر اسے قتل کرنے کا واقعہ رونما ہوا ہے ۔

اس طرح کے واقعات کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں تواتر کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے ۔ ان واقعات میں ملوث ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم سب بہن بیٹیوں والے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے گواہ کہاں سے لائیں گے ۔

یہ ایک مذاق ہے ۔ ہم سب کا مذہب اس حیوانیت کو تحفظ دینے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس سے بڑا ظلم نہیں ہے ۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں کو سزا دلانے کے لیے قانون سازی کریں ۔ بچے گلیوں اور محلوں میں گھوم نہیں سکتے ہیں ۔ حیوان نما انسان دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ہمیں اجتماعی سوچ کے ساتھ نئی قانون سازی کرنا ہوگی ۔ اسلام کے نام پر مجرم کا تحفظ دین کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔

ہمیں قومی اسمبلی میں بھی آواز اٹھانا ہو گی ۔ اس پر وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ حکومت سندھ نے ایک مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کردیا ہے ، جس کے تحت ریپ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ لازمی طور پر کرانا ہو گا ۔ یہ بل سندھ اسمبلی منظور کرلے گی ۔ اس حوالے سے مزید قانون سازی کی بھی ضرورت ہوئی تو ہم وکلاء ، ماہرین قانون اور دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کریں گے ۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور کچھ لوگ رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں ۔ لہذا ان رکاوٹوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم اپنا کام کریں گے ۔ وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی ایک بہت بڑا ایشو بن چکا ہے ۔ والدین شرم کی وجہ سے بتاتے نہیں ہیں ۔ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ اسکولز کے نصاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے مضمون کو شامل کیا گیا ہے ۔ سرکاری اسکولوں میں بھی یہ مضمون پڑھانا چاہئے تاکہ بچوں کو یہ پتہ چلے کہ ” بیڈ ٹچ “ کیا ہے اور ” گڈ ٹچ “ کیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :