سینٹ قائمہ کمیٹی کا گزشتہ تین سالوں میں چاروں صوبوں کی سڑکوں کے مرمتی کے اخراجات کی تفصیلات پر شدید تحفظات کا اظہار

جمعرات 3 اپریل 2014 05:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اپریل۔2014ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مسائل کم ترقی یافتہ علاقوں کے چیئرمین سینیٹر محمد یوسف بادینی نے گزشتہ تین سالوں میں چاروں صوبوں کی سڑکوں کے مرمتی کے اخراجات کی تفصیلات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگ بے روزگاری کے بعد پانی بجلی اور گیس کی محرومی کا پہلے سے شکار ہیں اور اب بلوچستان کے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی فنڈز کم ہیں بلوچستان کی سڑکوں کے 2002 کے تمام منصوبوں کو پندرہ 15 سال سے ایک ہی پراجیکٹ کا نام تبدیل کرکے شروع کیا جاتا ہے اور ٹھیکداروں کا کام ادہورا چھوڑ کر جانے کے بارے میں بھی سوالیہ نشانات ہیں ۔

بدھ کے روز قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد یوسف بادینی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر زروزی خان کاکڑ،عبد الرؤف ، نثار محمد خان ، احمد حسن ، خالدہ پروین ،میر محمد علی رند، کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری اورنگزیب حق ، چیئرمین این ایچ اے شاہد تارڑ کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر یوسف بادینی نے کہا کہ بلوچستا ن میں دو ہزار سڑکیں کرپٹ افسران کے حوالے ہیں محکمہ کے افسران خود ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں ٹھیکداروں کو کھلی بولی کے بجائے پری کوالیفکشن کے ذریعے اربوں روپے کے ٹھیکے آپس میں بندر بانٹ کی اجازت ہے ۔

موٹر وے اور نیشنل ہائی ویز کی تعمیر اور مرمتی کے لئے ملک بھر میں فنڈز استعمال کیے جاتے ہیں لیکن بلوچستان کے سڑکو ں کی مرمتی کیلئے اور نئے منصوبوں کے لئے فنڈز نہ ہونے کا سرکاری بہانہ بنایا جاتا ہے اور کہا کہ قومی انتخابات سے قبل وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی زبان پر ہر وقت بلوچستان کا نام ہوتا تھا این ایچ اے وزیراعظم پاکستان کو بلوچستان کی ترقی کے منصوبوں کی سمری بھجوائے وزیراعظم منظوری کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی جاری کریں گے اور ہدایت دی کہ این ایچ اے انتظامیہ سخت ترین سرکاری اقدامات کے ذریعے بلو چستان کے منصوبوں کو مکمل کروائے بُرے ترین حالات میں بھی این ایچ اے افسران نے امن و امان کی خراب صورتحال کے علاقوں میں تعیناتی سے انکار نہیں کیا امن وامان کا بہانہ بنا کر مخصوص علاقوں میں نہ جانے والے افسران کے خلاف کاروائی کی جائے ۔

چیئرمین این ایچ اے نے آگاہ کیا کہ موٹروے کی کل لمبائی 12131 کلو میٹر ہے ۔ اپنی عمر سات سال قبل مکمل کر چکی حالیہ ہیں ہر سال مرمتی کے لئے 45 ارب درکار ہیں لیکن وصولیاں 13 سے 14 ارب ہیں ریونیو 17 ارب جمع ہوتا ہے جس میں تین فیصد جرمانے کی رقم شامل ہے موٹروے کی این ایچ اے سڑک 10 سال کی عمرکا ڈائزین بناتاہے پانچ سے سات سال کے درمیان مرمتیاں کی جاتیں ہیں ملک بھر کی 37 فیصد سڑکیں کمزور ترین 45 فیصد بہتر اور 18 فیصد اچھی حالت میں ہیں سڑکوں کی مرمتی کے لئے درکار فنڈز نہیں ملتے این ایچ اے کی جن سڑکوں سے وصولیاں زیادہ ہوتی ہیں اخراجات وہاں زیادہ کیے جاتے ہیں این ایچ اے کی محکمانہ درستگی کیلئے سخت اقدامات لئے جارہے ہیں اور محکمے کے خرابی کے خاتمے کو چیلنج کے طور پر قبول کر لیا ہے شفافیت لا رہے ہیں سفارش کلچر کا خاتمہ کر دیا گیا ہے کرپٹ افسران کو معطل کر دیا گیا ہے بلوچستان کے منصوبوں کے ٹینڈر اخبارات میں شائع کروا دیئے گے ہیں ایک سال میں محکمے کو ایک ارب کی بچت ہوگی 17 سے 34 ارب کی بچت کا ٹارگٹ ہے بلوچستان کے منصوبوں کی مانٹرنگ کیلئے کمیٹی کی تجاویز پر عمل کیا جائے گا ایڈیشنل سیکرٹری اورنگزیب حق نے آگاہ کیا کہ سڑک استعمال کرنے والے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سڑکو ں کی مرمتی کا پلان تیار کیا جاتا ہے اوور لوڈ ٹرکوں کی وجہ سے موٹروے کو نقصان ہوتا ہے انفورسمنٹ کے لئے اربوں روپے کے اخراجات کی ضرورت ہے بلوچستا ن ہائی وے پولیس کے پاس گاڑیوں اور عملہ کی کمی ہے وزیراعظم سے فنڈز کے حصول کی سمری بھجوائی ہے ۔

سینیٹر نثار خان نے ہنگامی حالات میں این ایچ اے کی طرف سے استعمال کیے گے فنڈز اور بلخصوص خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ مالاکنڈ ڈویژن میں گزشتہ تین سالوں میں 12 ارب روپے کے اخراجات پر تحفظات کا اظہار کیااور کہا کہ کے پی کے اور سندھ میں سیلاب کے سال میں مرمتی کے اخراجات اور بریفنگ کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں اخراجات کے فرق پر این ایچ اے کی انتظامیہ سے ناراضگی کا اظہار کیا جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی نے ہنگامی حالات میں مرمتی اخراجات ٹینڈز ٹھکیوں اور بلوچستان میں ایک جی ایم ، ایک ڈائریکٹر اور دو ڈپٹی ڈائریکٹرز کی نگرانی میں دو ہزار کلو میٹر سڑک کے بارے میں اراکین کی مشاورت سے ذیلی کمیٹی قائم کر دی ۔

سینیٹر عبد الرؤ ف نے کہا کہ بلوچستان کے ملازمتوں کے صوبائی کوٹہ پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو این ایچ اے اور موٹر وے پولیس میں بھرتی کیا جائے ۔میوہ جات اور پھلوں کے مرکز شمالی بلوچستان میں سو سو کلو میٹر کچے راستے ہیں ۔سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ پچھلے دور کو نہ دہرایا جائے این ایچ اے کے 14 جی ایم میں سے 11 کا تعلق ایک ہی صوبے سے ہے صوبائی حکومتوں سے افسران این ایچ اے میں ڈیپوٹیشن پر لا کر بلوچستان کی محرومی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔