سپریم کورٹ نے ایم این اے غلام سرور خان کی رکنیت بحال کردی ،ٹرائل کورٹ اعلی عدلیہ کے فیصلے اور ریزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ دے،بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ازخود نوٹس اختیار بارے آئینی و قانونی وضاحت اور نئے پیرا میٹرز اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے، سپر یم کو رٹ ،آئین و قانون کے مطابق کسی بھی عوامی حلقے کو عوامی نمائندے سے خالی نہیں رکھا جاسکتا،جسٹس انور ظہیر جمالی، وزیراعلی پنجاب نے پنجاب ٹیکنیکل بورڈ پر اثرانداز ہوکر غلام سرور خان کو معطل کرانے کی کوشش کی،حفیظ پیرزادہ ،چیف الیکشن کمشنر اور سپیکر قومی اسمبلی کے بغیر کوئی بھی ادارہ کسی عوامی نمائندے کی رکنیت معطل نہیں کرسکتا، عدا لتی ریما رکس

جمعہ 4 اپریل 2014 06:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں تحریک انصاف کے کامیاب امیدوار این اے 53 سے غلام سرور خان کی ہائیکورٹ کی جانب سے معطل کردہ رکنیت بحال کردی ہے اور ٹرائل کورٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلی عدلیہ کے فیصلے اور ریزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ دے‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ الیکشن معاملات میں اعلی عدلیہ کی جانب سے ازخود نوٹس کے استعمال‘ نت نئے تقاضوں اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ازخود نوٹس اختیار بارے آئینی و قانونی وضاحت اور نئے پیرا میٹرز اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے اسلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعاء کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں لارجر بنچ تشکیل دیں اور اس طرح کی شکایات کا آئینی اور قانونی جواز پر فیصلہ دے جبکہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی مشکلات کے پیش نظر اور آئین و قانون کے مطابق کسی بھی عوامی حلقے کو عوامی نمائندے سے خالی نہیں رکھا جاسکتا‘ لاپتہ افراد کے مقدمے میں سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا تعین کرچکی ہے‘ عدالت کو بنیادی انسانی حقوق اور عوامی اہمیت کے معاملات پر خصوصی اختیارات حاصل ہیں‘ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ ووٹرز کو امیدوار کی انتخابی اہلیت کو چیلنج کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر انتخابات کے بعد اعلی عدلیہ میں براہ راست درخواست دائر کرنے کا ووٹر کو حق نہیں ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی عبدالحفیظ پیرزادہ نے بتایا کہ ایچ ای سی نے غلام سرور خان کی ڈگری جعلی قرار دی کہ ان کی تاریخ پیدائش میٹرک کی سند سے مختلف ہے۔ غلام سرور خان نے ضمانت حاصل کررکھی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور سپیکر قومی اسمبلی کے بغیر کوئی بھی ادارہ کسی عوامی نمائندے کی رکنیت معطل نہیں کرسکتا۔

جسٹس ثاقب نے پوچھا کہ ہائیکورٹ نے کیا فیصلہ کیا اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نے پنجاب ٹیکنیکل بورڈ پر اثرانداز ہوکر غلام سرور خان کو معطل کرانے کی کوشش کی۔ 1980ء سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ وزیراعلی کا اس صوبے میں کیا کام ہے؟ اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ سیاسی مخاصمت اس کی بڑی وجہ ہے۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ اس کیس میں ہائیکورٹ نے کیسے فیصلہ کردیا جبکہ اس میں ان کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ الیکشن پٹیشن میں صرف دو باتوں کی وجہ سے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو کاغذات نامزدگی کے وقت چیلنج کیا جاتا ہے کہ یہ بندہ اہل ہے یا نہیں‘ یہ الیکشن سے قبل کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی بندہ الیکشن لڑ کر جیت جاتا ہے تو پھر اس کیلئے الیکشن پٹیشن ہی دائر کی جاسکتی تھی۔

اس کے کاغذات نامزدگی کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ازخود نوٹس لے کر کارروائی کی گئی تھی۔ میرے کاغذات مسترد کئے گئے مگر ہائیکورٹ نے میری درخواست منظور کی اور الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ الیکشن کمیشن نے بھی میرے خلاف دائر درخواست خارج کی اور الیکشن ٹربیونل نے بھی اسے مسترد کیا۔ ٹربیونل کو سول اور فوجداری دونوں طرح کے اقدامات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

مگر اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ نادر مگسی کیس میں سپریم کورٹ نے اس طرح کے مقدمے کو اپ ہیلڈ کیا اور تحریری فیصلہ ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ 2010ء کے عدالتی فیصلے میں بھی اس طرح کا کوئی مسئلہ تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے بتایا کہ 21 نومبر 2013ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا۔ تحقیقات سے قبل کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آپ کو عبوری طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت مشروط طور پر دی گئی تھی۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ معطلی کے فیصلے کیخلاف آئے ہیں ازخود نوٹس کے تحت معطلی کے فیصلے کے حوالے سے کیا ہمیں فیصلہ دینے کا اختیار ہے یا نہیں؟ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ عدالت نے ضمانت اور الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی۔ حفیظ پیرزادہ نے اپنے مقدمے میں تین فیصلوں کا حوالہ دیا۔ نادر مگسی اور فیصل زمان وغیرہ‘ غلام قمر نامی ووٹر کی درخواست پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ کو اس معاملے میں مداخلت کا اختیار ہے اب جبکہ بندہ الیکشن بھی لڑ چکا ہے اس پر ووٹر کے وکیل نے بتایا کہ میری درخواست پر ان کی رکنیت معطل کی گئی۔

ہم شروع سے اب تک فریق ہیں۔ عبوری حکم کے اجراء کے وقت میں نے بہت سے کاغذات بھی داخل کئے تھے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ کو بطور ووٹر سپریم کورٹ سے رجوع کا حق ہے؟ اس کیس میں تو ازخود نوٹس کا اختیار استعمال ہوا ہے تو پھر آپ کیسے اس میں فریق بن سکتے ہیں اس پر وکیل نے کہا کہ خاور حیات کیس میں عدالت نے فیصلہ دے رکھا ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ازخود نوٹس میں خصوصی اختیارات استعمال کئے گئے تھے۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ اختیار عارضی طور پر استعمال ہوا ہے کہ کیا یہ درست تھا یا نہیں۔ ہائیکورٹ میں اس حوالے سے رجوع نہیں کیا گیا۔ جسٹس ثاقب نے کہاکہ عوامی نمائندگی کے حلقہ خالی نہیں رکھا جاسکتا اور یہ حلقہ کافی عرصے سے خالی ہے اور لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں آپ پھر بھی چاہتے ہیں کہ اس میں مزید تاخیر ہو۔

ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ آپ نے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔ ان کی صرف الیکشن ٹربیونل ہی رکنیت معطل کرسکتا تھا اور کوئی اختیار نہیں تھا۔ جسٹس انور نے کہا کہ اگر ہم اس طرح کی پریکٹس کی اجازت دے دیں تو ممبر پارلیمنٹ کو پورے پانچ سال مقدمہ بازی میں گزارنا پڑیں گے اور حلق کا خیال کون رکھے گا۔ آپ خود کو بطور رکن پارلیمنٹ رکھ کر فیصلہ کریں۔

اگر ہم نے محسوس کیا کہ یہ مناسب کیس بنتا ہے تو ضرور فیصلہ کریں گے مگر حلقے کو خالی نہیں رکھا جاسکتا۔ بادی النظر میں ہم نے تو ہائیکورت کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست کو ہی مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ یہ کوئی ۔کو وارنٹو، نہیں ہے اور نہ ہی ٹربیونل کا فیصلہ ہے بلکہ یہ تو ازخود نوٹس کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے ہم اسے کیسے چھیڑ سکتے ہیں۔

ووٹر کے وکیل نے عدالت میں مختلف فیصلے پیش کئے اور جمع کرائے گئے ضروری کا غذات بھی دکھائے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم آپ کو دلائل کیلئے مناسب وقت دیں گے مگر آپ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے بارے ہماری تسلی کرائیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ کسی فورم پر آپ نے کہا کہ یہ ڈگری جعلی تھی۔

ہم نے اس وقت موجود شکایت کا فیصلہ کرنا ہے۔ آپ کے پاس صرف ایک ہی دلیل ہے اور کوئی دلائل آپ کے پاس نہیں ہیں۔ وضاحت کریں کہ یہ نااہل ہیں اور عوامی نمائندگی کا حق نہیں رکھتے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہائیکورٹ نے فیصلہ میرٹ پر کیا ہے یا تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ کیا تھا۔ وکیل نے بتایا کہ تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ کیا گیا تھا‘ میرٹ پر دلائل نہیں سنے گئے۔

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آپ بتائیں کہ باقی فورم میں اس معاملے کی سماعت کیوں نہیں ہوسکی۔ بہت سے معاملات میں آپ کی وضاحت ضروری ہے جو آپ نہیں دے رہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہم نے آپ کی جانب سے دئیے گئے دلائل کو نوٹ کرلیا ہے۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ غلام سرور خان کے حق میں لگاکر پھر آپ یہاں آئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو قانون کے مطابق عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی والے معاملات پر ازخود نوٹس لیا ہے۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ آپ کے پاس مختلف اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ ووٹر نے ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ لارجر بنچ قائم کرکے اس کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ جاوید ہاشمی سمیت بہت سے مقدمات کا فیصلہ ہم کرچکے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں سپریم کورٹ اپنے اختیارات بارے فیصلہ دے چکی ہے۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے۔ اس کیس کا فیصلہ کرکے کئی اہم امور کی وضاحت ضروری ہے۔ نیو ڈاکٹرائن کے حوالے سے عدالتی اختیار سماعت بارے عدالتی معاونت کرنے کو تیار ہوں۔ عدالت نے فیصلہ تحریری کراتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حقائق و واقعات کا جائزہ لیا ہے اور آئین و قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیتے ہیں کہ این اے 53 میں غلام سرور خان کو عبوری طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کے حوالے سے حفیظ پیرزادہ کے دلائل یہ ہیں کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ ممبر پارلیمنٹ کبھی بھی اپنے حلقے کی نمائندگی نہ کرسکے۔ غلام قمر کے وکیل نے بھی دلائل دئیے ہیں اور ثمینہ خاور حیات فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ جوکہ ممبر شپ کی معطلی کا تھا‘ کو حقائق اور آئین و قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے غلام سرور خان کی رکنیت بحال کی جاتی ہے تاہم الیکشن کے حوالے سے مقدمات میں ازخود نوٹس کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے اسلئے آفس کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھے اور ایک لارجر بنچ قائم کرکے اس آئینی معاملے کا فیصلہ کیا جائے۔

حفیظ پیرزادہ نے ہائیکورٹ کی جانب سے فوجداری اختیارات استعمال کرنے بارے اپنی درخواست نمٹانے کی استدعاء کی اور کہا کہ ہائیکورٹ کے ریمارکس کو حذف کیا جائے۔ چار قسم کی ریزرویشنز دی گئی تھیں۔ معاملہ ٹرائل کورٹ کو ریفر کیا گیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اس معاملے کو کرائم رپورٹ قرار دیا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ کو چالان کی روشنی میں فیصلہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ تین ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ میرٹ پر فیصلہ کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت دئیے گئے ریزرویشن سے متاثر ہوکر فیصلہ نہ کرے۔ مقدمے کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔