مذاکرات میں ریاست کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا‘ سعد رفیق، کسی کو رعایت دے کر اگر خون خرابہ روکا جا سکتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں، امریکی اشارے پر افغانستان کی جنگ میں بغیر سوچے سمجھے شامل ہو گئے تھے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں‘ بلوچستان میں رواں برس ہی امن عمل کا آغاز ہوگا‘میڈیا سے گفتگو

منگل 8 اپریل 2014 06:08

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8اپریل۔2014ء)وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات میں ریاست کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کسی کو رعایت دے کر خون خرابہ روکا جا سکتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ امریکی اشارے پر افغانستان کی جنگ میں بغیر سوچے سمجھے شامل ہو گئے تھے جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کہیں بھی مسلح مزاحمت کاروں سے مذاکرات آسان نہیں ہوتے اس دوران کئی اتار چڑھاو آئیں گے لیکن ہمیں امید ہے کہ امن کی منزل پا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بھی اسی سال مزاحمت کاروں سے مذاکرات کئے جائیں گے جو لوگ مسلح مزاحمت کے بجائے سیاسی عمل میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان لوگوں کو ضرور سنیں گے۔

(جاری ہے)

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اب پاکستان کا نمبر ون مسئلہ نہیں ہے ہمیں امن و امان اور معاشی صورتحال پر توجہ دے کر آگے بڑھنا ہے۔

سعد رفیق نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی اختلافات بدستور موجود ہیں لیکن وہ سندھ میں عوام کی اکثریتی نمائندہ جماعت ہے اور ہم اس کے مینڈیٹ کو رد نہیں کر سکتے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ غیر منتخب حکومتوں کے دوران مذاکرات کی پالیسی نہیں اپنائی گئی لیکن موجودہ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں نے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے کی اراضی پر بننے والے کلب سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹنا ہماری عادت بن گئی ہے جو اچھی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں کئی دہائیوں سے صورت حال خراب ہے جسے بہتر کرنے کی فوری ضرورت ہے، ماضی میں غلط پالیسیوں سے فاٹا کے متعدد علاقے جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن گئے جہاں پھر امن قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں رواں برس ہی امن عمل کا آغاز ہوگا اور اس معاملے پر سردار اختر مینگل کی شکایات کو غور سے سنیں گے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہیں اور نئی افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، بھارت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ بھارت کے سیکولرعوام کس قسم کی حکومت منتخب کرتے ہے تاہم جس کی بھی حکومت آئے ہم اس کے ساتھ تجارت بڑھانے اور تعلقات مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔