ای او بی آئی بدعنوانی کیس، چیئرمین کو ڈی ایچ اے سمیت دیگر فریقین سے اراضی کی فروخت بارے کئے گئے معاہدوں ، اراضی کی دوبارہ بولی دلوانے سمیت معاملات پر حتمی فیصلے کرنے کے لیے دو ہفتوں کی آخری مہلت،ای او بی آئی سکینڈل میں افسران بالا ملوث تھے ان کیخلاف سول اور فوجداری کارروائی کی ضرورت ہے۔ان کی غلطیوں کا خمیازہ کسی دوسرے کو نہیں بھگتنا،جسٹس انور جمالی، مقدمہ بازی والی اراضی چاہے جتنی بھی پرکشش ہو کوئی خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ، مخالف فریق سے اگر کوئی شکایت ہے تو اراضی واپس کرکے رقم لی جاسکتی ہے،ریمارکس، ای او بی آئی میں بس کرپشن ہی کرپشن ہے، آخر ایسی کون سے مجبوری تھی کہ دو سے تین ماہ میں ای او بی آئی نے اتنی بڑی ڈیل کی،جسٹس اعجاز چوہدری، اراضی کی بولی کے لیے اشتہار دیا تھا مگر کوئی بولی دینے نہ آیا، معاملے کا ازسرنو جائزہ لینا چاہتے ہیں، غیر شفاف ڈیل کے تمام فریقین ذمہ دار ہیں،چیئرمین ای او بی آئی

جمعرات 10 اپریل 2014 06:59

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10اپریل۔2014ء ) سپریم کورٹ نے ای او بی آئی بدعنوانی کیس میں چیئرمین ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹس انسٹی ٹیوشن کو ڈی ایچ اے سمیت دیگر فریقین سے اراضی کی فروخت بارے کئے گئے معاہدوں ، اراضی کی دوبارہ بولی دلوانے سمیت معاملات پر حتمی فیصلے کرنے کے لیے دو ہفتوں کی آخری مہلت دے دی ہے اور کہا ہے کہ ای او بی آئی حکام خود فیصلہ کرلیں بصورت دیگر عدالت فیصلے کردے گی ۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ای او بی آئی سکینڈل میں ان کے اپنے افسران بالا ملوث تھے ان کیخلاف سول اور فوجداری کارروائی کی ضرورت ہے ۔ ای او بی آئی افسران کی غلطیوں کا خمیازہ کسی دوسرے شخص کو نہیں بھگتنا ۔ مقدمہ بازی والی اراضی چاہے جتنی بھی پرکشش ہو کوئی خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔

(جاری ہے)

مخالف فریق سے اگر کوئی شکایت ہے تو اراضی واپس کرکے رقم واپس لی جاسکتی ہے اراضی کی مارکیٹ ویلیو سے کئی گنا بڑھ کر قیمت دی گئی، ای او بی آئی حکام اس معاملے میں معصوم نہیں ۔

جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ ای او بی آئی میں بس کرپشن ہی کرپشن ہے یہ پینڈورہ بکس نہیں کھولنا چاہیے اور نہ ہی اس کو فیصلہ کا حصہ بنائیں گے آخر ایسی کون سے مجبوری تھی کہ دو سے تین ماہ میں ای او بی آئی نے اتنی بڑی ڈیل کی جبکہ چیئرمین ای او بی آئی نے عدالت کو بتایا ہے کہ انہوں نے مذکورہ اراضی کی بولی کے لیے اشتہار دیا تھا مگر کوئی بھی شخص بولی دینے نہیں آیا اب اس معاملے سے ازسرنو جائزہ لینا چاہتے ہیں وقت دیا جائے غیر شفاف ڈیل کے تمام فریقین ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے یہ موقف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو بدھ کے روز پیش کیا ہے ۔ ایڈن گارڈنز کے وکیل طارق محمود نے عدالت کو بتایا کہ وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں پے آرڈز بھی بنا لئے گئے ہیں اب معاملہ ڈی ایچ اے کا ہے ای او بی آئی نے ہم سے زائد رقم مانگی ہے ۔ سکھر میں ہوٹل بنانا تھا جس کے لیے ایک کمپنی کو رقم دی گئی 33ملین روپے دیئے گئے قبضہ بھی ای او بی آئی کے پاس ہے جائیداد تو ہم کو نہیں ملی مگر ہمارے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ایف آئی اے والے ہمیں تنگ کررہے ہیں، انہوں نے جو رقم بھی خرچ کی ہے اس کا منافع مانگ رہے ہیں ۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ان کے افسران نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ان کو ان کا کچھ انعام ملنا چاہیے آپ نے جتنی جائیداد خریدی تھی اس حوالے سے تو رقم واپس کرنا پڑے گی ۔ ہم آپ کو جائیداد واپس کرنے کی بات نہیں کرتے ہم تو آپ کو آپشن دے رہے ہیں کہ رقم دے دیں یا پھر جائیداد واپس کردیں رجسٹریشن کے اخراجات اور جو کنسلنٹ مقرر ہوئے ان کے اخراجات تو آپ کو ادا کرنا پڑیں گے ۔

ای او بی آئی کے وکیل حافظ عبدالرحمان نے کہا کہ آپ نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے یہ غلط کام ہوا ہے پہلے آرڈر میں ہمارے افسران کو غلط قرار دیا گیا معاملات آپ کے روبرو واضح کرنا چاہتے ہیں یکم جولائی 2013ء کو پہلا حکم نامہ جاری ہوا تھا سیکرٹری نے ای او بی آئی میں چارج سنبھالتے ہوئے تمام تر جائیداد کی منتقلی اور تمام تر معاملات روک دیئے تھے، اس پر عدالت نے کہا کہ اب معاملہ سکھر میں موجود اراضی کا ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے سکھر کے حوالے سے بتائیں ۔

طارق محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ انہوں نے تحریری نکات داخل کئے ہیں اس کا جائزہ لے کر بھی عدالت فیصلہ دے سکتی ہے دو باتوں کی مکمل وضاحت کردی گئی ہے نیسپاک نے اس معاملے کی تصدیق نہیں کی تھی زمین کی خریداری کے وقت اراضی کی ویلیو زیادہ تھی جس کا خیال نہیں رکھا گیا پیپرا رولز کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے ای او بی آئی کے وکیل سے کہا کہ یہ ازخود نوٹس تھا آپ ک وتو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کسی ادارے کے افسران نے کرپشن کی ہے وہ فوجداری معاملہ ہے اس کو اس کے مطابق ہی ڈیل کرینگے آپ کو ریلیف اس حد تک ہی دے سکتے ہیں کہ جتنا ہمارے اختیار میں ہے ۔

ایس اے رحمان نے کہا کہ ڈیل طے شدہ تھی اس کے اخراجات غیر قانونی ہیں جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ نے اپنی ٹرانزیکشن کو درست قرار دیا تھا اگر ہم ازخود نوٹس نہ لیتے تو نجانے کیا ہوتا ۔ پیسہ کس کے پاس گیا ہے ۔ ایس اے رحمان نے کہا کہ یہ ڈیل ہی غلط ہوئی ہے اس لیے یہ فراڈ ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ڈیل فراڈ تھی اس لئے آپ کا نقصان آپ نے نہیں کسی اور نے کیا ہے ؟ ایس اے رحمان نے کہا کہ تمام تر ڈیل سے پردہ اٹھایا گیا ہے جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ رپورٹ کی آڑ میں ہم آپ کے ذمہ واجب الادا پیسے بھی ان سے لے لیں ۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ یہ زیادہ آپ کو ریلیف دے سکتے ہیں کہ یہ جائیداد آپ کو واپس کردیں اس کے علاوہ آپ کو کچھ نہیں دلا سکتے ہم یہاں کسی کے ساتھ زیادتی کے لیے نہیں بیٹھے ایک چیز خریدتے وقت چوری یا غلط قرار دی جاتی ہے تو دوکاندار کہہ دیتا ہے کہ واپس دے دیں ۔ اس دوران چیئرمین ای او بی آئی بھی پیش ہوے ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ کہیں 120 کی پراپرٹی کی قیمت 12 کروڑ روپے کی کیسے ہوگئی یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں آپ کے اپنے افسران ملوث تھے ان کیخلاف مقدمات درج ہونے چاہیے سول اور فوجداری کارروائی ہونی چاہیے ۔

رقم کی واپسی اگر مخالف فریق کرینگے تو یہ رضا کارانہ طور پر ہی ہوگی ہم ان کو مجبور نہیں کرینگے ۔ چیئرمین نے کہا کہ ہمیں جو آپشن دیا گیا تھا اس کے حوالے سے بورڈ نے غور کیا ہے ہم تو یہ کہہ ر ہے کہ رقوم کی منتقلی شفاف طریقے سے نہیں کی گئی تھی دونوں طرف سے بددیانتی ہوئی ہے دونوں پر ذمہ داری عائد ہوگی اور نقصان برابر تقسیم ہوگا ان رقوم کی منتقلی میں ای او بی آئی کا جو نقصان ہوا ہے وہ مخالف فریقن کو برداشت کرنا پڑے گا ۔

جسٹس انور نے کہا کہ ایک رقم مخالف فریق کی جانب سے واجب الادا بنتی ہی نہیں وہ کیسے دلوا دیں یہ تو سول سوٹ کا کیس ہے ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ اس ٹرانزیکشن کا کون ذمہ دار ہے ؟ اس پر چیئرمین نے کہا کہ دونوں فریق ذمہ دار ہیں جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ خود سے جائزہ لے لیں معاملہ نیب کے پاس لے جائیں فیصلہ کرالیں آپ کے ادارے میں کرپشن ہوئی ہے انہوں نے آپ کو زبردستی جائیداد نہیں دی تھی، چیئرمین نے کہا کہ اس معاملے پر باہم مذاکرات ہوئے تھے اور فریقین کی منظوری سے معاملات طے ہوئے تھے جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آپ ایک چیز کی مارکیٹ ویلیو سے بڑھ کر قیمت دے رہے ہیں تو آپ کیسے معصوم ہوسکتے ہیں آپ اس کے ذمہ دار ہیں کام آپ کے ادارے نے غلط کیا ہے آپ جا کر ڈیل کینسل کردیں ہم کیا کرسکتے ہیں ۔

چیئرمین نے کہا کہ رقم کی منتقلی شفاف نہیں تھی اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اگر آپ نے مارکیٹ ویلیو سے زائد قیمت دے کر اراضی خریدی ہے تو آپ اراضی واپس کرکے پیسے لے لیں ۔ ہم نے جائیداد کو واپس کرنے کو نہیں کیا ہم تو اس کا فیصلہ چاہتے ہیں ۔ چیئرمین نے کہا کہ بین الاقوامی اور قومی پریس میں اس کی بولی کے حوالے سے اشتہارات بازی کی گئی ہے اور بورڈ کے فیصلے کے مطابق اس کا آکشن کیا جائے گا ۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ جس اراضی پر مقدمہ بازی چل رہی ہوتی ہے اس کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے اگر آپ اس اراضی کی بولی لگائیں گے تو کس نے مناسب رقم دینی ہے اس کی پہلے ویلی ایشن ہونی چاہیے ۔ چیئرمین نے کہا کہ اس معاملے میں فوجداری کارروائی بنتی ہے عدالت کا یہی فیصلہ ہمیں اراضی کا آکشن کرنے دیاجائے قیمت مقرر کرنے دی جائے یہ غریبوں کا پیسہ ہے ۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کی سماعت کا مقصد عوامی پیسہ کا تحفظ ہے قانون کو دیکھیں تو یہ سول تنازعہ ہے آپ صرف ڈگری حاصل کرسکتے ہیں فوجداری کارروائی آپ صرف اپنے افسران کیخلاف ہی کرسکتے ہیں دوسرے فریق کیخلاف آپ کارروائی نہیں کرسکتے ۔ ایک کالم میں دی گئی اراضی کیلئے 12کروڑ 90لاکھ تو مخالف فریق دینے کو تیار ہیں 33ملین روپے مخالف فریق کیوں دے ۔

اخراجات کیوں کوئی دے گا جبکہ غلطی بھی آپ کی ہے آپ یہ تمام واجبات فروخت کنندہ سے کیسے وصول کرسکتے ہیں آپ کو اپنا کیس ثابت کرنا پڑے گا کہ اس ڈیل میں آپ کے افسران کے علاوہ مخالف فریق ملوث تھے کچھ نہ کچھ منافع وہ آکر چاہیں تو دے دی وہ بھی مجبور نہیں کرینگے ۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کے افسران کو سزائیں ہوچکی ہیں اور معاملات ختم ہوچکے ہیں اور اب اس کا آکشن کرنے لگے ہیں یہ جو پیسے آپ کو مل رہے تھے آپ کو وصول کرلینا چاہیے تھا ۔

ہم کسی کو نقصان نہیں دینگے آپ کو پالیسی تیار کرکے آنی چاہیے تھی ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاکہ عدالت کے روبرو تمام فریق برابر ہیں کچھ منافع کی حد تک تو ای او بی آئی کا حق بنتا ہے۔ طارق محمود نے کہا کہ بولی اس لئے نہیں ملی کہ انہوں نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ ہم نے بولی صرف اراضی کی ویلیو کا جائزہ لینے کے لئے دی گئی ہے تو پھر کس نے بولی دینی ہے اگر گاہک کو پتہ ہوگا کہ وہ یہ اراضی ہے جس کو فروخت ہی نہیں کیا جاسکتا تو اس کی بولی کیوں دے گا ان کو پہلے سوٹ فائل کرنا پڑے گا ڈگری حاصل کرنا پڑے گی، میڈیا میں ای او بی آئی کے حوالے سے کے حوالے سے کچھ کیا گیا اس سے تو کسی نے اراضی کی بولی دینی ہی نہیں ایس اے رحمان نے کہا کہ ایڈن گارڈنز نے کرپشن کی ہے اور دھوکہ سے ڈیل کی تھی۔

جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ ای او بی آئی میں سب ہی سب فراڈ ہے اور دو تین مہینے میں ا چانک اس پراپرٹی کو کیوں فروخت کیا گیا یہ پنڈورہ بکس ہے جو نہیں کھول سکتے اور نہ ہی اس کو فیصلہ کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ جسٹس انور نے کہا کہ آپ سارے معاملے کا جائزہ لے لیں پھر فیصلہ کرلیں اب تو یہ اراضی بھی مہنگی ہوگی مگر مقدمہ بازی کی وجہ سے کوئی خرید نہیں ر ہا ہے ۔ چیئرمین نے کہا کہ اراضی کی ویلیو تو ضرور ہے مگر کیس سپریم کورٹ میں ہے اس لئے فیصلہ نہیں ہورہا ہے۔ جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ ہم آپ کو اس حوالے سے آخری بار غور کا موقع دے رہے ہیں بصورت دیگر عدالت فیصلہ کرے گی عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :