تحفظ پاکستان آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج ،وفاقی حکومت‘ قائد حزب اختلاف، سپیکر قومی اسمبلی‘ وفاقی وزیر اور ممبر قومی اسمبلی زاہد حامد کو در خوا ست میں فریق بنا یا گیا ہے ،تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی اور آئین کی متعدد شقوں کے منافی ہے‘ در خو است گزار

جمعرات 10 اپریل 2014 07:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10اپریل۔2014ء) تحفظ پاکستان آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا‘ محمود اختر نقوی نے وفاقی حکومت‘ قائد حزب اختلاف‘ اقتدار‘ قومی اسمبلی‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ وفاقی وزیر اور ممبر قومی اسمبلی زاہد حامد‘ شاہ محمود قریشی ممبر قومی اسمبلی‘ آفتاب احمد خان شیرپاؤ‘ مولانا امیر زمان کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی اور آئین کی متعدد شقوں کے منافی ہے۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس فیصلے کے خلاف ورزی انتظامیہ کو عدلیہ کے اختیارات تفویض آرڈیننس میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق پر کاری ضرب لگائی گئی۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود حکومت نے قومی اسمبلی سے تحفظ پاکستان آرڈیننس منظور تو کروالیا۔

(جاری ہے)

اس آرڈیننس میں سپریم کورٹ کے 1996ء کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر انتظامیہ کو عدالتی اختیارات تفویض کردئیے گئے ہیں جبکہ آرڈیننس میں آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگائی گئی ہے۔

شہریوں سے مقدمے کی منصفانہ پیروی کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس کی شق نمبر 8 کی ذیلی شق 5 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 18 یا اس سے اوپر کے افسر کو سپیشل جوڈیشر مجسٹریٹ لگایا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ایک مرتبہ پھر غیر محسوس انداز میں سول افسران کو عدالتی اختیارات تفویض کئے گئے حالانکہ سپریم کورٹ اپنے 1996ء کے فیصلے میں واضح کرچکی ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ بالکل الگ ہیں۔

وزارت قانون کے سیکرٹری قانون خود ایک ڈی ایم جی کے افسر رہے ہیں اسلئے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے طبقے کو نوازا ہے جبکہ آئین پاکستان 1973ء کی شق نمبر 8 سے 28 تک شہریوں کے بنیادی حقوق کا واضح تحفظ کیا گیا ہے مگر اس آرڈیننس میں اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرڈیننس کی شق نمبر 3 کی ذیلی شق نمبر 2 میں واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر وارنٹ گرفتاری کے مجاز ہیں۔

کسی شخص پر شک و شبہ کی بنیاد پر فائرنگ کا اختیار دیا گیا جس پر کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ کسی بھی چار دیواری کی بغیر احکامات کے تلاشی لی جاسکتی ہے۔ شق 5 کی ذیلی شق 4 ہے کہ شہری کا 90 دن کا ریمانڈ لیا جاسکتا ہے جبکہ شق 6 میں لکھا ہے کہ سیکرٹری داخلہ کسی بھی شہری کو 90 دن تک تحویل میں لینے کا حکم دے سکتا ہے جبکہ آرڈیننس میں مقدمے کی منصفانہ پیروی کا اختیار لیتے ہوئے Burdn of profe کے کے صدیوں پرانے نظام کو تبدیل کردیا گیا یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ولی خان کیس میں اسی حوالے سے نیب آرڈیننس کی شق نمبر 14 جس میں Burdn of profe کی ایسی ہی تشریح کو آڑے ہاتھوں لیا تھا حالانکہ دنیا کیے تمام ممالک میں (Criminal right to fair trial justice system) یعنی مقدمے کی منصفانہ پیروی پر ہوتی ہے جبکہ اس آرڈیننس کی شق 18 میں اپیل کا ایک فورم ہی ختم کردیا گیا ہے یعنی سیسن عدالت سے مدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں جائے گا۔

بھٹو کیس میں سب سے بڑی تنقید یہی کی جاتی ہے کہ ایک فورم ختم کرتے ہوئے مقدمہ براہ راست ہائیکورٹ میں لایا گیا تھا۔ کسی کیس میں تمام فورمز کو استعمال کرنا ملزم کا پورا حق ہوتا ہے مگر اس قانون کے تحت یہ حق بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھین لیا گیا۔ سیکشن 18 میں ہر قسم کے جرائم شامل کردئیے گئے ہیں۔ اب اس کے بعد پاکستان پینل کورٹ صرف براہ راست نام ہی کا رہ جائے گا۔

آرڈیننس میں لاپتہ افراد کو بھی آئینی حیثیت تو دی گئی ہے مگر اس کی منظوری سے قبل جو لوگ لاپتہ ہیں انہیں بھی یہی قانون تحفظ فراہم کرے گا جبکہ اس آرڈیننس کے بعد مقتدر ادارے کسی بھی شخص کو تحویل میں رکھنے کی وجہ اور جگہ بتانے کے مجاز نہیں ہیں۔ شق 21 ہے کہ اس قانون کو تمام قوانین پر فوقیت ہوگی۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس امریکہ کے 2002ء میں ہوم لینڈ سکیورٹی ایکٹ سے بھی سخت شمار کیا جارہا ہے جس پر پوری نیا میں شدید تنقید کی گئی تھی۔

بنیادی حقوق‘ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ انتظامیہ یا مقننہ کو متعلق ہونے یا من مانی کرنے سے روکا جائے اور قانونی طور پر ہر شہری کو اس بات کا پورا پورا موقع دیا جائے کہ وہ آزادی سے اپنی شخصیت کی تکمیل‘ اپنے ضمیر کی آواز کو بلند اور حکومتی پالیسیوں کی تعمیل اور تنقید کرسکے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ جب اسے انفرادی حیثیت حاصل ہو اور وہ حکومت یا حکومت کے افسروں کی بے جاء دست اندازی اور چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے نیز مقننہ سخت گیر یا جابرانہ یا ایسے قوانین منظور نہ کرسکے جس سے براہ راست شخصی آزادی پر ضرب پڑتی ہو۔

حکومت پاکستان نے آئین کی تیاری کے وقت اپنے باشندوں کے تمام حقوق کا خیال رکھا ہے تاکہ تمام شہری یکساں طور پر جمہوری روایات سے فائدہ اٹھا سکیں اور انہیں ان تمام سہولتوں کا بروئے کار لانے کا موقع مل سکے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو بہتر اور کارآمد بناسکیں۔ آئین میں حقوق انسانی اور بنیادی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان حقوق کے احترام اور اسی سلسلے میں باہمی تعاون پر زور دیا گیا ہے اور زبان‘ نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے حقوق سلب نہیں کئے گئے۔

آئین نے ان طریقوں سے اور ذریعے کو بھی بیان کیا ہے کہ جن کے ذریعے ان حقوق کا نفاذ کیا جاسکتا ہے۔ اس غرض سے دستور نے شہریوں کو وہ تمام بنیادی حقوق دئیے ہیں جو اقوام متحدہ کے عالمی انسانیت کے منشور سے منطبق ہیں لہٰذا وہ تمام قوانین جو ان حقوق سی کسی بھی طور پر متصادم ہوں‘ دستور کی رو سے ناجائز ہیں اور انہیں عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

وقت کے بادشاہوں نے انسانی حقوق اور شہریوں کے حقوق کی پامالی کرتے ہوئے تحفظ پاکستان آرڈیننس‘ ترمیمی آرڈیننس 2013-14ء سپریم کورٹ کے 1996ء کے فیصلے کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کرلیا جوکہ مکمل طور پر آئین سے متصادم ہے اور فوری طور پر اس تحفظ پاکستان آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے پاکستان ترمیمی آرڈیننس منظور کرنے والوں کیخلاف آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اور سزا دینا اور نیب آرڈیننس 1999ء‘ شق 9 کے Crupt Practice کا مقدمہ بھی قائم کرنے کا حکم دینا‘ عین انصاف کے عین مطابق ہے۔

خدائی خدمتگار من سائل عرض گزار ہے کہ سرکاری مدعاء علیہان نے اور دیگر تحفظ پاکستان آرڈیننس جوکہ پاس کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم 1996ء کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کیخلاف آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کی کارروائی کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62-63 کے تحت نہ صادق اور نہ امین رہے۔ ان کو ممبر قومی اسمبلی اور سرکاری عہدوں سے فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دینا عین انصاف کے عین مطابق ہے۔

درخواست میں مزید استدعاء کی گئی ہے کہ سائل کی آئینی درخواست نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس درخواست کو مکمل طور پر منظور کرنے کا حکم صادر کرنے کی استدعاء ہے۔ قومی اسمبلی کے ذریعے تحفظ پاکستان ترمیمی آردیننس 2013-14ء منظور کیا گیا ہے۔ اسے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مجریہ 1973ء سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دینے کا حکم صادر کرنے کی استداء ہے۔

قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل جو منظور کیا گیا ہے اس کا مکمل ریکارڈ اور 7 اپریل 2014ء کے قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم مدعاء علیہ سپیکر قومی اسمبلی اور سیکرٹری قومی اسمبلی کو معزز عدالت میں تحریری طور پر بمعہ حلف نامہ پیش کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعاء ہے۔ مدعاء علیہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف و پارلیمانی امور حکومت پاکستان تحفظ پاکستان ترمیمی بل جو منظور کیا گیا ہے اس کا مکمل ریکارڈ معزز عدالت میں ان پرسن پیش ہوکر تحریری طور پر بمعہ حلف نامہ پیش کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعاء ہے۔

مدعاء علیہ سیکرٹری وزارت قانون (ڈی ایم جی آفیسر) نے سپریم کورٹ کے فیصلے 1996ء کے فیصلے کے برخلاف اپنے طبقوں کو نوازنے کیلئے جو ترمیمی بل تیار کرکے پیش کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کیلئے زاہد حامد وفاقی وزیر کو دیا اور زاہد حامد نے قومی اسمبلی میں پیش کرکی جو منظور کروایا ان دونوں یعنی مدعاء علیہان سیکرٹری وزارت قانون اور وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر ان کے عہدوں سے برطرف کرنے اور آرٹیکل 62-63 کے تحت نہ صادق اور نہ امین رہنے کا قرار دیتے ہوئے زاہد حامد کو نااہل قرار دینے کا حکم جاری کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے 1996ء کے فیصلے کے برخلاف تحفظ پاکستان آرڈیننس بل جوکہ قومی اسمبلی سے پاس کرروایا گیا اور مدعاء علیہ سپیکر قومی اسمبلی نے پاس کیا اور مدعاء علیہ سیکرٹری وزارت قانون اور وفاقی وزیر زاہد حامد اور قائد حزب اقتدار نے آرٹیکل 204 توہین عدالت اور توہین عدالت آرڈیننس 2003ء کے تحت کارروائی کرتے ہوئے سخت سے سخت سزا دینے اور نیب آرڈیننس 1999ء سب سیکشن 6 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے اقدامات کرنے پر مدعاء علیہ وائس چیئرمین ادارے نیب کو مقدمہ قائم کرکے مقدمے کا مکمل ریکارڈ معزز عدالت میں تحریری طور پر بمعہ حلف نامہ ان پرسن پیش ہوکر معزز عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعاء ہے کیونکہ کوئی سخص کوئی ادارہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

معزز عدالت آئین اور قانون کی محافظ ہے۔ ہر شخص آئین و قانون کے تحت کام کرنے کا پابند ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ فیصلوں کے نفاذ کیلئے اخلاقی قوت موجود ہے۔ کسی ریاستی ادارے نے حد سے تجاوز کیا تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ قانون کی نظر میں ہر ادارہ برابر ہے۔ کوئی ملک آئین و قانون کے بغیر نہیں چل سکتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے فرمان جوکہ سنہری حروف سے لکھا اور پڑھا جانے والا فرمان ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے سائل کی درخواست منظور کرتے ہوئے تاریخ ساز فیصلہ جاری کرنے کی استدعاء ہے۔ مزید معزز عدالت جو مناسب سمجھے تاریخ ساز فیصلہ جاری کرے جوکہ مکمل طور پر عین انصاف کے عین مطابق ہو۔