سپریم کورٹ کا خالد خلیل اور حسن عبد اللہ لاپتہ کیس میں اظہار برہمی، آئی جی پنجاب سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب ، تمام لاپتہ افراد بھی ملک کے شہری ہیں اس بارے قانون کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہیے،جسٹس جواد ایس خواجہ

جمعہ 11 اپریل 2014 06:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11اپریل۔2014ء)سپریم کورٹ نے لاہور سے اٹھائے گئے خالد خلیل اور حسن عبد اللہ لاپتہ کیس میں سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کی ہے جبکہ مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے لاپتہ سیاب کی بازیابی کے لئے خیبر پختونخواہ حکومت کو اعلی افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔

تین رکن بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیاب لاپتہ کیس میں بظاہر معاملہ صوبائی حکومت کا نظر آرہا ہے تاہم ضرورت محسوس ہوئی تو وفاق اور حساس اداروں سے بھی اس حوالے سے پوچھیں گے۔ لاپتہ افراد کا آئین و قانون کے مطابق حل چاہتے ہیں تمام لاپتہ افراد بھی ملک کے شہری ہیں اس لئے قانون کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

بعض لاپتہ افراد کے مقدمات میں ٹھوس شواہد موجود ہیں ۔اس لئے مبینہ طورپر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر کے ان کو بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کی ۔اس دوران آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے ۔

عدالت کو بتایا کہ لاہور کے لاپتہ خالد خلیل اور حسن عبد اللہ کو ایلیٹ فورس نے اٹھایا تھا۔اس حوالے سے پولیس اور 15 سے بھی رجوع کیا گیا تھا ۔خالد خلیل کی ہمشیرہ کی شادی تھی اوراس دوران حسن عبد اللہ شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔ان کو لے جاتے ہوئے بہت سے لوگوں نے دیکھا تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے آئی جی پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی ۔رپورٹ کیوں نہیں دی گئی۔

آئی جی پنجاب آج جمعہ کو اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔اس کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔اس لئے معاملات سامنے آنے چاہئیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج جمعہ کے دن تک ملتوی کر دی ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے گزشتہ روز مالاکنڈ سے لاپتہ سیاب کیس کی بھی سماعت کی ۔اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ 2008 ء میں محمد سیاب عبد قربان کے لئے مردان آیا تھا اور اس نے یہاں سے بکریاں ا ور دیگر جانور خرید کر واپس جاتا تھا تاہم اس دوران وہ لاپتہ ہوگیا۔

ایک سال بعد ان کے گھر ٹیلی فون کال آئی کہ اسے پولیس نے تھانہ خرکی میں بند کررکھا ہے ۔اس دوران میڈیا میں بھی خبریں آئیں کہ تین افراد جن میں ظاہر شاہ ،عامر اور محمد سیاب تھا کو پولیس نے گرفتار کیا ہے ۔پولیس میں موجود لاپتہ نوجوان کے رشتہ داروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ نوجوان پولیس حراست میں ہے اس پر تھانے سے رابطہ کیا گیا ۔پولیس نے اس کے انکار کر دیا تاہم اتنا ضرور پتہ چل گیا کہ نوجوان کو پولیس نے خفیہ طور پر کہیں رکھا ہوا ہے ۔

اب اس معاملے کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے مگر نوجوان کا پتہ نہیں چل دیا اس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے اعلی افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم مقرر کرے اور اس حوالے سے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے بعد ازاں کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔