سینیٹ اجلاس ،پی ایم ڈی سی (ترمیمی) آرڈیننس 2014 ء میں چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے خلاف پیپلزپارٹی کا احتجاجاً علامتی واک آؤٹ، اپوزیشن لیڈر رضا ربانی‘ اعتزاز احسن‘ فرحت الله بابر اور بابر اعوان کی ترمیمی آرڈیننس کے خلاف زور دار تقاریر ، آرڈیننس کو بل کے طور پر سینیٹ میں پیش کیا جارہا ہے اس آرڈیننس کو مشترکہ مفادات کی کونسل کے پاس کیوں نہیں بھیجا گیا، رضا ربانی ،چونکہ یہ ایک ترمیمی آرڈیننس ہے اس لئے اس کو سینیٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے ، چیرمین سینٹ

بدھ 16 اپریل 2014 06:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔2014ء) سینیٹ کے اجلاس میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (ترمیمی) آرڈیننس 2014 ء میں چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کے خلاف پیپلزپارٹی کا اجلاس سے احتجاجاً علامتی واک آؤٹ اپوزیشن لیڈر رضا ربانی‘ اعتزاز احسن‘ فرحت الله بابر اور بابر اعوان نے بھی ترمیمی آرڈیننس کے خلاف زور دار تقریریں کیں۔ منگل کے روز سینیٹ کے اجلاس میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قانون و انصاف سینیٹر پرویز رشید نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آرڈیننس 2014 ء کو ایوان میں پیش کیا جس کی پیپلزپارٹی نے شدید مخالفت کی اس پر چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیمی آرڈیننس 2014 ء ہے اسے چونکہ سینیٹ میں پیش کردیا گیا ہے اور اس کی آئینی اور قانونی حیثیت یہ ہے کہ جب اسے سینیٹ میں پیش کیا گیا تو یہ بل نہیں بلکہ ترمیمی آرڈیننس ہے جب بل کی صورت میں اسمبلی سے پاس ہوکر آئے گا تو اسے سینیٹ میں زیر بحث لایا جائے گا۔

(جاری ہے)

جس کی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے مخالفت کی اور سینیٹ سے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے قبل ازیں آرڈیننس پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر رضا ربانی نے کہا کہ آرڈیننس کو بل کے طور پر سینیٹ میں پیش کیا جارہا ہے اس آرڈیننس کو مشترکہ مفادات کی کونسل کے پاس کیوں نہیں بھیجا گیا۔ اگر کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے تو بھی اس کی یہ منظوری غیر آئینی ہے سینیٹ میں وہی دستاویزات پیش ہونی چائیں جو آئینی ہوں جس طرح یہ بل پاس کیا جارہا ہے یہ غیر آئینی ہے اگر یہ نیشنل اسمبلی سے بطور بل آیا ہوتا تو اس پر تفصیلاً بحث کی جاتی آرڈیننس کے طور پر اسے سینیٹ میں کیوں پیش کیا جارہا ہے حکومت اس کی وضاحت کرے کہ اس آرڈیننس کوسینیٹ سے پاس کرانے کا کیا مقصد ہے۔

رضا ربانی کے اعتراض پر وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت اس بل کو واپس لیتے ہوئے اسے موخر کرنے کیلئے بھی تیار ہے اگر اسے موخر کردیا جائے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زاہد حامد نے کہا کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی سے منظور ہوکر آیا ہے اگر وہاں سے یہ بل منظور ہوکر آیا ہے تو اس پر مزید کارروائی ہوسکتی ہے۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر یہ آرڈیننس کے طور پر سینیٹ میں پیش کردیا گیا ہے اب اس آرڈیننس کو ہر حال میں پیش کرنا ضروری ہے چاہے سینیٹ اسے منظور کرے یا نہ کرے مشترکہ مفادات کی کونسل نے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور تمام سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے بغیر اس بل کو منظور نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جماعت اگر آج ہونے والے اجلاس میں مشترکہ مفاداتی کونسل سیکرٹریٹ سے اس حوالے سے این او سی لے کر آجائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ اگر یہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں جائے بغیر یہاں سے پاس کردیا جائے تو یہ ایک آرڈیننس کی حیثیت رکھتا ہے مشترکہ مفادات کی کونسل کی منظوری کے بغیر اسے پاس نہیں ہونا چاہیے یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جیسے ایوان میں پیش نہیں ہونا چاہیے جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے کہا کہ چونکہ یہ ایک ترمیمی آرڈیننس ہے اس لئے اس کو سینیٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ یہ ایک بل کی صورت میں آئے تو اس پر سینیٹ میں بحث کی جائے جس پر مزید بحث سے قبل ہی پیپلزپارٹی نے سینیٹ سے احتجاجاً علامتی بائیکاٹ کیا۔ تو چیئرمین سینٹ نے اجلاس ملتوی کردیا۔