سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب تقرری کیس کی سماعت،این آئی سی ایل کیس میں لوٹے گئے اربوں روپے واپس آسکے نہ ہی اصل ملزموں کو گرفتار کرکے کوئی سزا دی گئی‘جسٹس سرمد جلال عثمانی، پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں مداخلت نہیں کریں گے‘ جسٹس امیر ہانی مسلم،چیئرمین نیب کی تقرری میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت ہونی چاہئے‘ جسٹس ناصرالملک، قمرالزمان چوہدری کاکورٹ مارشل ہونا تھا مگر ضیاء الحق کی بیوی نے رکوادیا ‘ داغدار ماضی کے حامل کو کس طرح چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا ہے‘ عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل

جمعرات 17 اپریل 2014 06:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمر الزمان چوہدری کی تقرری کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دئیے ہیں کہ این آئی سی ایل کیس میں لوٹے گئے اربوں روپے واپس آسکے نہ ہی اصل ملزموں کو گرفتار کرکے کوئی سزا دی گئی‘ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں مداخلت نہیں کریں گے‘ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت ہونی چاہئے‘ چیئرمین نیب کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی گئی لہٰذا اس تقرری پر عدالتی فیصلے کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟ جبکہ عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ قمرالزمان چوہدری صدر ضیاء الحق کے اے ڈی سی بھی رہے ہیں اور سرکاری ملازمت کے باوجود لوگوں کو پرائیویٹ طور پر ہزاروں روپے لے کر باہر بھجواتے رہے ان کیخلاف کورٹ مارشل ہونا تھا مگر ضیاء الحق کی بیوی نے ایسا کرنے سے روک دیا اور انہیں سول سروس میں بھجوادیا‘ داغدار ماضی کے حامل افراد کو کس طرح چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا ہے‘ چیئرمین نیب کی تقرری میں چیف جسٹس سے مشاورت بھی نہیں کی گئی۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل بدھ کے روز جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کے روبرو دئیے۔ حامد خان نے مختلف فیصلوں کے حوالے دئیے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ چیئرمین نیب کیسے آزاد عدلیہ کیخلاف ہوسکتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ایک شخص کیخلاف کارروائی کی وجہ سے آج بھی یہ تحفظات برقرار ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کسی غلط اقدام کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔

حامد خان نے کہا کہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے کیونکہ چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ ہے۔ انہوں نے بینک آف پنجاب کیس کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہم نے آپ کے چار نکات نوٹ کرلئے ہیں کیا اب آپ اضافی نوٹ بتارہے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ جی ہاں! ازخود نوٹس کیس کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ آپ این آئی سی ایل کیس کا حوالہ دے رہے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ملک اقبال توہین عدالت کیس میں قمرالزمان چوہدری کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے تھے کہ انہوں نے عدالتی احکامات میں عملدرآمد کی بجائے عبدالرؤف چوہدری کو بھی نوٹس جاری کئے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ سماعت اپنے منطقی انجام کونہیں پہنچ پائی۔

اگر ایسا ہے تو پھر ہم کیسے اس پر کوئی بات کرسکتے ہیں۔ جس معاملے کی ابھی سماعت ہونا باقی ہے اس پر کون بات کرسکتا ہے۔ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ تاحال قمرالزمان چوہدری کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت زیرالتواء ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ایاز خان نیازی کی تقرری میں قمرالزمان کو بھی مخدوم امین فہیم سمیت دیگر افراد کے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایاز خان نیازی کی تقرری شفاف نہیں تھی۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا ان سب کیخلاف کارروائی ہوئی۔ حامد خان نے بتایا کہ بدقسمتی سے کارروائی نہیں ہوئی۔ قمر افضل نے بتایا کہ سب افسران کیخلاف کارروائی کی گئی تھی اور انکوائری کے بعد چیئرمین کو کلیئر قرار دے دیا گیا تھا۔ آپ وقت دیں گے تو تمامتر تفصیلات عدالت کو بتاؤں گا۔ حامد خان نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو وہی ادارہ شفاف قرار دے رہا ہے جس کے وہ خود چیئرمین ہیں۔

جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ این آئی سی ایل کیس میں لوٹے گئے پیسے بھی واپس نہ آسکے اصل ملزم بھی رہا ہوگئے۔ اگر صدر مملکت کسی شخص کی تقرری کرنا چاہیں تو انہیں کون روکے گا۔ حامد خان نے کہا کہ اس کیلئے قواعد و ضوابط دیکھنا ہوں گے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی حمایت رکھتا ہے تو کیا قانون کو بالائے طاق رکھ دیں گے۔ حامد خان نے کہا کہ وہ تو محض کیس کا خاکہ عدالت کو بتارہے ہیں کہ کس طرح سے ایک شخص کو چیئرمین مقرر کیا گیا جس کیخلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی کارروائی پینڈنگ تھی۔

چیئرمین نیب کے تقرر کا مکمل طور پر طریقہ کار موجود ہے جس کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی گئی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ قمرالزمان چوہدری کی تقرری عدالتی فیصلے سے قبل ہوئی تھی کیا یہ فیصلے پر اثرات مرتب کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کیخلاف کارروائی جاری ہو تو کیا کسی ایک شخص کے کردار پر بات کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ حامد خان نے کہا کہ یہ سول سرونٹ کی فراغت کا مقدمہ نہیں عدالت کا فیصلہ ہے۔

میرے خیال میں تو یہ لاگو ہوگا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر تقرری بذات خود پراپر نہیں تھی تو اس وقت عدالتی فیصلہ نہیں آیا تھا۔ اس فیصلے کے اس پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسرے پہلو ہم بعد میں دیکھیں گے پہلے اس بارے میں بتائیے۔ حامد خان نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ دیا‘ 2010ء سے اس کیخلاف کیس زیر سماعت تھا۔ عدالتی حکم کو نظرانداز کرکے قابل اعتراض شخص کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا۔

عدالتی سماعت قمرالزمان چوہدری کی علم میں تھی باقی لوگ بھی آگاہ تھے پھر ان کی تقرری کیوں کی گئی۔ اس فیصلے کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کا ماضی میں کردار مشکوک رہا ہو کیا اسے نیب جیسے اہم ادارے کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے بینک آف پنجاب کیس کا بھی حوالہ دیا۔ چیئرمین نیب کے وزیراعظم اور وزراء سمیت کئی اہم عہدیداروں کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر معاملات میں سماعت کرنا ہوتی ہے تو ایسے میں ایسا شخص جسے وزیراعظم کی حمایت حاصل ہو‘ کیا وہ چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا ہے؟ چیئرمین نیب کے عہدے کو تمامتر شخصیات سے بالاتر رکھنے کیلئے صدر مملکت کو چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت پر اس کی تقرری کرنا ہوتی ہے۔

چیئرمین نیب کا عہدہ تین سال کیلئے ہوتا ہے اس کی برخواستگی کیلئے ججز کے نکالنے کا طریقہ کار استعمال ہوتا ہے۔ چیئرمین نیب نے ہی کسی کیخلاف ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اسلئے قابل شخص کا ہی چیئرمین ہونا ضروری ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ نے بتایا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے وقت صدر مملکت نے چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی‘ یہ تقرری عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے اس پر حامد خان نے کہا کہ یہ سب میرے نکات ہیں۔

چیئرمین نیب سیاسی طور پر لوگوں کو ملزم قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ان کی تقرری سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ موڈ آف تقرری کو چیلنج کررہے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ اس کیس میں جو مشاورت کی گئی ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ شخص کی تقرری سے بعض لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ اس کیس کے حقائق بتائے ہیں کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ چیف جسٹس سے مشاورت ازحد ضروری تھی۔ میں موجودہ چیئرمین کی تقرری کو چیلنج کررہا ہوں۔ شاہد اورکزئی کیس میں بھی عدالت نے یہی کہا تھا کہ مشاورت ضروری ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے چیئرمین نیب کی تقرری کو چیلنج کیا تھا وہ فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس سے مشاورت کا مقصد یہ ہے کہ ایسا شخص مقرر کیا جاسکے جو تمام معاملات قانون کے دائرے میں رہ کر نمٹائے اور سیف گارڈ کا کام دے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر اپ کی بات مان لی جائے تو پھر پہلے سے دئیے گئے فیصلوں پر کیا ریویو نہیں کرنا پڑے گا۔ حامد خان نے کہا کہ ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے ممکن ہے کہ کچھ ریزرویشن پر بات کرنا پڑے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ شاہد اورکزئی کیس میں چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت ضروری قرار دی گئی کیا آپ کا یہی کیس ہے۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ شاہد اورکزئی کیس میں چیف جسٹس کی مشاورت اسلئے ضروری قرار دی گئی کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف مل کر کسی کو چیئرمین مقرر کردیں۔ حامد خان نے کہا کہ قائد حزب اختلاف ایک اکیلا شخص پوری اپوزیشن کی نمائندگی کیسے کرسکتا ہے‘ ممکن ہے کہ اپوزیشن میں مختلف جماعتیں شامل ہوں۔ چیئرمین کی تقرری سب کو متاثر کرتی ہے۔ میرا مقصد اپوزیشن سے وسیع بنیادوں پر مشاورت کرنا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں کیسے مداخلت کرسکتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ججز کیس میں ملک کے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا اب بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ کا مقصد یہ ہے کہ صرف قائد حزب اختلاف سے ہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین سے بھی مشاورت کی جانی چاہئے کیونکہ اپوزیشن میں بہت سے گروپ شامل ہوتے ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ نیب قانون تین ذرائع چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے فراہم کرتا ہے۔ سیکشن 6 بی اے میں عدلیہ‘ آرمی اور سول سرونٹ کا نام لیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب سپریم کورٹ کا جج‘ آرمڈ فورسز میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر اور سول سرونٹ کے طور پر 22 ویں گریڈ کا حامل افسر رہا ہو۔ آپ اس حوالے سے ریویو کرکے فیصلہ دے سکتے ہیں۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ اگر چیئرمین نیب کی فراغت کی بات کررہے ہیں اس کیلئے تو قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی۔

ایک جج کے اپنی مدت ملازمت کے دو سال بعد تک انتظار کرنے میں کیا فلاسفی ہوسکتی ہے۔ حامد خان نے کہا کہ وہ انتظامی افسر مقرر نہیں ہوسکتے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ چونکہ جج اور بیوروکریٹ کے جذبات مختلف ہوتے ہیں ممکن ہے اسلئے دو سال کا عرصہ رکھا گیا ہو تاکہ وہ خود کو نئے عہدے کے مطابق ڈھال سکے۔ ممکن ہے اس کا مقصد عدالتی معیار کو بلند رکھنا ہو۔

جج کسی بیوروکریٹ اور آرمڈ فورسز کے افسر کے طور پر کام نہیں کرسکتا۔ دوسرا جج کا معاملہ اسلئے بھی مختلف ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ کو اختیارات کی حد تک الگ الگ کرنا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ چیئرمین نیب بیوروکریٹس کیخلاف بھی کارروائی کرنا ہوتی ہے‘ ممکن ہے اسلئے ریٹائرڈ افسر کی بات کی گئی ہو۔ حامد خان نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر ایسا شخص چیئرمین کے طور پر چاہتے ہیں جو اپنی مہارت سے ان کو بچاسکے۔

22 نومبر 2013ء کو عدالت نے حکم جاری کیا اس دوران قمرالزمان چوہدری چھٹی پر چلے گئے اور بعد میں حالات بدل گئے۔ جیسے ہی تفتیش مکمل ہوئی وہ واپس آگئے۔ یہ واقعات حالات کی حساسیت کو واضح کرتے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ازخود نوٹس کیس میں جب عدالت نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تو کیا عدالت ریزرویشن جاری نہیں کرسکتی تھی کہ اسے مقرر نہ کیا جائے۔

حامد خان نے کہا کہ ریزرویشن پر انہیں خود کو ہی اس معاملے سے الگ کرلینا چاہئے تھا۔ یہ عدالتی فائنڈنگ کی روح کے منافی تھا کہ اس نے نیب کا چارج سنبھالا۔ ان کی فراغت کی بات نہیں کررہا میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اس کی تقرری ہی غلط تھی‘ معاملہ بھی جان بوجھ کر لٹکایا گیا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ بعد میں دیا جس کے تحت ایک تو ان کو اس عہدے کیلئے نااہل قرار دلانے کی درخواست دی جاتی یا پھر 209 کے تحت ریفرنس فائل کیا جاتا۔

حامد خان نے کہا کہ ریفرنس صدر دائر کرسکتا ہے باقی سب تو صرف شکایت درج کراسکتے ہیں۔ تین سال تک وہ عدالت میں بطور ملزم پیش ہوتے رہے ہیں انہیں کیسے چیئرمین نیب مقرر کیا جاسکتا تھا اس پر عدالتی فیصلے کے بعد چارج سنبھالنے کے حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ ایاز نیازی کے کنڈکٹ بارے وہ جانتے تھے کہ وہ اس طرح سے کرپشن کرے گا۔

تب تو اسے اس کی تقرری کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ حامد خان نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ اس دوران چیئرمین نیب کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ سینٹ میں تحفظ پاکستان آرڈیننس پر بحث ہورہی ہے انہوں نے بھی اس میں حصہ لینا ہے اسلئے وہ اگلے روز دلائل دیں گے۔ ضیاء الحق کے دور میں چوہدری ظہور الٰہی وزیر تارکین وطن تھے۔ ایک کتاب کے حوالے کے دوران حامد خان نے بتایا کہ اے ڈی سی کے معاملے میں مداخلت کی گئی تھی۔ ریکارڈ بھی ٹمپر کیا گیا۔ عدالت نے کتاب مانگ لی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی۔