عراق میں صحافیوں کے قتل کا معمہ حل طلب ہے،رپورٹ،سی پی جے کی فہرست میں 13 ایسے ملک شامل ہیں جہاں 2004ء سے اب تک کم ازکم پانچ صحافیوں کے قتل کے معاملات حل طلب ہیں،کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس

جمعرات 17 اپریل 2014 06:40

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اپریل۔2014ء)صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے قتل کی تحقیقات مکمل نہ کرنے والے ملکوں میں عراق بدستور سر فہرست ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اپنی ایک سالانہ رپورٹ میں نیویارک میں قائم تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" نے کہا کہ عراق گزشتہ سال سے مسلسل اس ضمن میں سر فہرست ہے اور وہاں ایک دہائی کے دوران 100 صحافی ہلاک کیے جا چکے ہیں جب کہ ان ہلاکتوں میں ملوث ہونے پر کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی۔

رپورٹ میں دوسرے نمبر پر آنے والے ملک صومالیہ میں گزشتہ سال چار صحافیوں کے قتل کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ تنظیم کے مطابق اس ملک میں 27 ہلاکتوں میں سے صرف ایک شخص پر مقدمہ چلایا گیا۔

(جاری ہے)

اس فہرست میں 13 ایسے ملک شامل ہیں جہاں 2004ء سے اب تک کم ازکم پانچ صحافیوں کے قتل کے معاملات حل طلب ہیں۔شام کو اس فہرست میں پہلی بار شامل کیا گیا ہے جہاں سات صحافیوں کو دانستہ حملوں میں ہلاک کیا گیا اور ان کے قاتلوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

سی پی جے نے فروری میں جاری کی گئی اپنی ایک الگ رپورٹ میں شام کو کرہ ارض پر صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔یہ تازہ رپوٹ کے منظر عام پر آنے سے چند ماہ قبل اقوام متحدہ نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی۔ اس قرارداد میں صحافیوں پر حملوں اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

سی پی جے کی فہرست میں تیسرے نمبر پر فلپائن ہے جہاں 51 صحافیوں کے قتل کا معمہ تاحال حل طلب ہے، اس کے بعد سری لنکا کا نمبر ہے ایسے ہی واقعات میں سزائیں نہ ہونا صحافیوں کی جلاوطنی کی ایک بڑی وجہ ہے۔فہرست میں درج دیگر ملکوں میں افغانستان، میکسیکو، کولمبیا، پاکستان، روس، برازیل، نائیجیریا اور بھارت شامل ہیں۔سی پی جے کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے 96 فیصد صحافی مقامی ہوتے ہیں اور ان میں سے 40 فیصد کو پہلے جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل چکی ہوتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں ملوث عناصر میں سے گرفتار یا مقدمے کا سامنا کرنے والوں کی شرح ان واقعات کی نسبت صرف پانچ فیصد ہے۔

متعلقہ عنوان :