وفاقی وزیر داخلہ طالبان کیساتھ مذاکرات پر ایوان کو اعتماد میں لیں،سینٹ میں اپوزیشن کا مطالبہ ، وضاحت کریں مذاکرات کہاں پہنچے ہیں ؟جن لوگوں کو جاری مذاکرات کے دوران رہا کیا گیا ہے اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں ، کے پی کے نئے گورنر کا جنگجوؤں کو عام معافی دینے کا اعلان متنازعہ بیان ہے جس نے مذاکرات اور وفاق کے کردار کو متنازعہ بنایا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت وضاحت کرے ، زیرو آور میں پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن سینیٹرز کا اظہار خیال

جمعہ 18 اپریل 2014 06:47

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اپریل۔ 2014ء )سینٹ میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیں اور اس حوالے سے وضاحت کریں کہ مذاکرات کہاں پہنچے ہیں جن لوگوں کو جاری مذاکرات کے دوران رہا کیا گیا ہے اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں ، کے پی کے نئے گورنر سردار مہتاب کا جنگجوؤں کو عام معافی دینے کا اعلان ایک متنازعہ بیان ہے جس نے مذاکرات اور وفاق کے کردار کو متنازعہ بنایا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت وضاحت کرے ۔

جمعرات کے روز سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین فرحت اللہ بابر نے سینٹ اجلاس میں زیرو آور میں پوائنٹ آف آرڈر میں کہا کہ جنگجوؤں کے حوالے سے نئے گورنر نے عام معافی کا ا علان کرکے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا ہے ہمیں بتایا جائے کہ کیا یہ حکومت پاکستان کی نئی پالیسی ہے اس حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا دہشتگرد جنگجوؤں کو معاف کرنا پارلیمنٹ کی پالیسی نہیں ہے اس بیان سے جنگجو مزید مستحکم ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ میں نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ مستحکم پارلیمنٹ ہے اور اس کے فیصلوں کا احترام ہوتا ہے مگر گورنر نے متنازعہ بیان جاری کرکے ایک نیا ایشو ملک میں کھڑا کردیا ہے اپوزیشن لیڈررضا ربانی نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات کے عوض جن لوگوں کو رہا کیا ان کے حوالے سے بتایا جائے کہ ان پر کیا الزامات تھے ان لوگوں کی فہرست ایوان میں پیش کی جائے اگر وہ تحریک طالبان کے خاص لوگ نہیں تھے تو انہیں رہا کیوں کیا گیا ہے یہ ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے مذاکرات کے ہم حامی ہیں مگر حکومت کا دوہرا معیار ہمارے لئے تشویش ناک صورتحال اختیار کرچکا ہے انہوں نے کہا کہ اے پی سی کے تحت ہم نے حکومت کو اختیار دیا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرے مگر جس طرح لوگوں کو ریلیز کیا گیا اور ان کی فہرست ایوان میں پیش نہیں کی گئی اس سے حکومت کا دوہرا کردار سامنے آتا ہے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ طالبان ظالمان کی ایک تنظیم ہیں جو مذاکرات کے نام پر وقت کاضیاع کررہی ہے ہم نے مذاکرات کا خیر مقدم کیا امن کو موقع ملنا چاہیے جس کا پوری قوم نے خیر مقدم کیا ہے ظالمان بدنیت لوگ ہیں اور وہ قبائلی علاقوں میں علیحدہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے سیز فائر معاہدے کا احترام نہیں کیا وہ دوبارہ منظم ہوچکے ہیں انہوں نے اپنے دھڑے کے مخصوص لوگوں کو حکومت سے رہا کروالیا ہے اس وقت افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کیخلاف سب سے زیادہ متحرک ہیں مولانا فضل اللہ افغان انٹیلی جنس کے پاس ہے وہ لوگوں کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کررہا ہے جن لوگوں سے مذاکرات ہورہے ہیں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو ، جنرل نیازی ، افواج پاکستان کے علاوہ سات ہزار لوگوں کو شہید کیا حکومت نے قاتلوں کو رہا کیوں کیا جن لوگوں کو رہا کیا گیا ان کے بارے میں ایوان کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ۔

طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہہ دیا ہے کہ ہم سیز فائر نہیں کرینگے یہ سب دہشتگرد لوگ ہیں ان کی حکمت عملی ایک ہے یہ مذاکرات کے نام پر وقت کا ضیاع کررہے ہیں یہ افغانستان میں ہوں یا قبائلی علاقوں میں ان کا مقصد صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ان کو کچلنا ہوگا ۔