بڑی تعداد میں قومی اداروں کے سربراہان کی جگہیں خالی ہیں حکومت ڈیڑھ سال بعد بھی موزوں افراد ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے،قومی اسمبلی کی صنعت و پیداوارکمیٹی کا اظہار تشویش، پانچ ملین روپے سے کم آمدن والی صنعتوں کو ناجائز تنگ نہ کرنے کی سفارس،حکومت نے صرف کنٹریکٹ اور عارضی ملازمین سے پابندی ہٹائی ہے، غلام مصطفی جتوئی

جمعہ 18 اپریل 2014 06:35

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18اپریل۔ 2014ء )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بڑی تعداد میں قومی اداروں کے سربراہان کی جگہیں خالی ہیں اور حکومت ڈیڑھ سال کے بعد بھی موزوں افراد ڈھونڈنے اور ان کی تعیناتی کرنے میں ناکام رہی ہے اور سفارش کی ہے کہ پانچ ملین روپے سے کم آمدن والی صنعتوں کو ناجائز تنگ نہ کیا جائے، وزیرصنعت و پیداور غلام مصطفی جتوئی نے کمیٹی کو بتایا کہ اگرچہ حکومت کی جانب سے ملازمتوں پر پابندی اٹھا لی گئی ہے تاہم وہ ریگولر سٹاف کیلئے نہیں ہے صرف کنٹریکٹ اور عارضی ملازمین سے پابندی ہٹائی گئی ہے۔

کمیٹی کااجلاس چیئرمین کمیٹی اسد عمر کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ،جس میں منیجنگ ڈائریکٹر یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی قانونی حیثیت ، اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی اور زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کے معاملہ پر غور کیا گیا ۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران شرکاء کو بتایا گیا کہ خاقان مرتضیٰ کو 20اگست کو 2013ء کو منیجنگ ڈائریکٹر یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن آف پاکستان تعینات کیا گیا جو گریڈ20کے آفیسر ہیں تاہم تعیناتی کے دوران وزارت کی طرف سے ملک منظور احمد ، ضرار حیدر اور یاسمین مسعود کے نام وزیراعظم ہاؤس بھیجے گئے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے پاس سے عبدالجلیل ، سجاد احمد ، رضوان ملک اور شفقت الرحمان رانجھا کے نام اپنی طرف سے سمری میں شامل کردیئے تھے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر و بیشتر اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے وقت اعلیٰ حکام اپنی مرضی سے نام شامل کردیتے ہیں جس سے میرٹ پر پورا آنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ فی الوقت بڑی تعداد میں قومی اداروں کے سربراہان کی جگہیں خالی ہیں اور حکومت ڈیڑھ سال کے بعد بھی موزوں افراد ڈھونڈنے اور ان کی تعیناتی کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رکن کمیٹی عبدالمنان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ سیلز ٹیکس کی وصولی کی آڑ میں سرکاری افسران چھوٹی مقامی صنعتوں کو تنگ کررہے ہیں جس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے سفارشات دیتے ہوئے کہا کہ پانچ ملین روپے سے کم آمدن والی صنعتوں کو ناجائز تنگ نہ کیا جائے ۔ اجلاس میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ دنیابھر میں جس جگہ بھی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ کیا جاتا ہے اس کا مقصد مقامی صنعت کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے تاہم پاکستان میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ ان ملکوں کو تحفظ دینے کیلئے کیا جاتا ہے جہاں سے درآمدات کی جارہی ہوتی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ خرم دستگیر ، چوہدری نثار خان اور اینٹی ٹیرف کمیشن کو کتنا وقت لگے گا اس معاملے کو حل کرنے کیلئے یہ صرف تین دن کا کام ہے جس کو چار سے پانچ ماہ ہوگئے مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے اس پر چیئرمین کمیٹی اسد عمر نے کہا کہ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا مقصد مقامی انڈسٹری کو تحفظ دینا ہے تاہم ایسا نہیں ہورہا جو افسوسناک امر ہے ۔ انہوں نے کمیٹی کی جانب سے ہدایت کی کہ نیشنل ٹیرف کمیشن، ایف بی آر اور سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان مل کر بیٹھیں اور جلد از جلد اس مسئلے کو حل کریں ۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سمیڈا)حکام نے بتایا کہ ان کے اکثر و بیشتر سمیڈا دفاتر موزوں سٹاف کی کمی کا شکار ہیں جس کے باعث خیبر پختونخواہ ، سندھ اور بلوچستان میں بیشتر دفاتر غیر فعال ہیں اس موقع پر وضاحت کرتے ہوئے وزیرصنعت و پیداور غلام مصطفی جتوئی نے کمیٹی کو بتایا کہ اگرچہ حکومت کی جانب سے ملازمتوں پر پابندی اٹھا لی گئی ہے تاہم وہ ریگولر سٹاف کیلئے نہیں ہے صرف کنٹریکٹ اور عارضی ملازمین سے پابندی ہٹائی گئی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ عارضی بنیادوں پر ملازمین کی تقرری کرکے غیر فعال دفاتر کو فعال بنایا جاسکتا ہے ۔

رکن کمیٹی ساجدہ بیگم کا کہنا تھا کہ سمیڈ ا کے ذریعے قرضوں کو حصول کا عمل ان کا طریقہ کار اور کاغذی کارروائی انتہائی مشکل بنا دیئے گئے ہیں جس کے باعث عام لوگوں کو دشواری کا سامنا ہے جب ماضی میں سمیڈا سے انہوں نے رابطہ کیا تو ہیڈکوارٹر سے یہ بتایا گیا کہ سوات میں لوگوں کو قرضے دیئے جارہے ہیں تاہم یہ بات ان کے عملی مشاہدے میں آئی کہ سوات میں تیس سے چالیس لوگوں کو صرف قرضہ ملا ہے جبکہ دیگر لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملا ۔

رکن کمیٹی قیصر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ کبھی بھی کوئی تاجر یا چھوٹا کاروباری فرد سمیڈا کے پاس نہیں آیا اکثر و بیشتر افراد کو سمیڈا کے بارے میں علم ہی نہیں ہے ۔اس موقع پر سیکرٹری صنعت و پیداوار نے این ایف سی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کمیٹی کو بتایا کہ این ایف سی کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ جون سے ادارے کا کوئی سربراہ نہیں ہے اسی طرح اس کا ذیلی ادارے این ایف ایم ایل بھی بغیر سربراہ کے چل رہا ہے گریڈ سترہ کے ملازمین کو عارضی طور پر سربراہ بنایا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ تبدیل کیاجاتا ہے جب تک ایک بااختیار سربراہ نہیں ہوگا ادارے میں مسائل رہیں گے فی الوقت این ایف سی صرف دو تین انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ چلا رہا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ یا تو محکمے کو ختم کردینا چاہیے یا پھر اس کو کسی یونیورسٹی کے ساتھ منسلک کردینا چاہیے۔

انہوں نے عبدالمنان کی قیادت میں پہلے سے موجود ذیلی کمیٹی سمیڈا کے حوالے سے معاملات دیکھنے اور ان کے حل تجویز کرنے کے حوالے سے ایک ماہ کے اندر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کردی ۔