سرپرست نہیں تو شیشہ بھی نہیں، کوئی سعودی خاتون شیشہ پینے کے لیے کسی کیفے میں جاتی ہے تو اس کے ساتھ کسی محرم مرد کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟سعودی عرب میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی دنیا میں نئی گرما گرم بحث چھڑ گئی

ہفتہ 19 اپریل 2014 07:28

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19اپریل۔ 2014ء)سعودی عرب میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی دنیا میں گرما گرم بحث ہو رہی ہے کہ اگر کوئی سعودی خاتون شیشہ پینے کے لیے کسی کیفے میں جاتی ہے تو اس کے ساتھ کسی محرم مرد کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب کسی نے ایک کیفے کے باہر لگے ہوئے نوٹس کی تصویر ٹوئٹر پر لگا دی۔

نوٹس میں لکھا تھا کہ خواتین اس کیفے میں داخل ہو سکتی ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب ان کے ساتھ کوئی مرد بھی ہو۔آخرِ ہفتہ سے سوشل میڈیا میں اس بات پر بحث خاصا زور پکڑ چکی ہے۔

(#منع_تقدیم_الشیشی_للفتیات_بدون_محرم) یعنی ’مرد سرپرست کی غیر موجودگی میں لڑکیوں کے شیشہ پینے پر پابندی ہے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اب تک 80,000 سے زائد لوگ اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

خواتین کی اکثریت نے اس نوٹس پر اپنی بیزاری کے اظہار کے لیے طنز کا سہارا لیا۔ایک خاتون کا کہنا تھا: ’اب آپ کی طرف سے ہمیں صرف یہ بتانا باقی بچا ہے کہ ہم سرپرست کے بغیر باتھ روم بھی نہیں جا سکتیں’اگر میں شیشے کا ایک کش لیتی ہوں اور اس وقت میرا مرد سرپرست بیت الخلا گیا ہوا ہے، تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ جب تک وہ بیت الخلا سے واپس نہیں آ جاتا میں دھواں اپنے منہ میں ہی دبائے رکھوں یا میں اس کی غیر موجودگی میں دھواں خارج کر سکتی ہوں؟کچھ مردوں نے بھی سوشل میڈیا پر اس نوٹس کا مذاق اڑایا ہے۔

اگر آپ مجھے بطور سرپرست کرائے پر لے جانا چاہتی ہیں تو میری فیس 50 ریال ہو گی

۔ان خواتین و حضرات کے علاوہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس خیال کی حمایت بھی کر رہے ہیں کہ خواتین کو اکیلے شیشہ پینے نہیں جانا چاہیے: ’یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ کم سے کم لڑکیاں شیشہ پینے جائیں۔ یہاں ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے والدین سے چھْپ کر شیشہ پینے کیفے چلی جاتی ہیں۔

سعودی عرب میں محرم سے متعلق قوانین کا سختی سے اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت سعودی خاتون کو سفر، دفتر میں کام کرنے، طبی معائنہ یا آپریشن کرانے اور شادی بیاہ کے وقت اپنے مرد سرپرست سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔سعودی عرب کے بارے میں اپنی ایک سخت رپورٹ میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا تھا کہ محرم کا قانون ’سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

شیشہ یا حقہ عرب ممالک میں مردوں اور خواتین دونوں میں مقبول ہے۔

یاد رہے کہ شیشہ یا حقہ عرب ممالک میں مردوں اور خواتین دونوں میں مقبول ہے۔باقی معاملات کی طرح خواتین کے شیشہ پینے سے متعلق نوٹس پر سوشل میڈیا پر جاری بحث میں بھی بنیادی حقائق نظر انداز کیے گئے ہیں۔متعلقہ کیفے کا اپنے نوٹس کے بارے میں کہنا تھا کہ انھوں نے یہ نوٹس سعودی عرب کے نیکی کو پھیلانے اور برائی کو روکنے کے سرکاری کمیشن (جسے عرف عام میں مذہبی پولیس بھی کہا جاتا ہے) کی ہدایات کی روشنی میں لگایا ہے۔

تاہم کمیشن کے ایک اہلکار نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ہدایات کو غلط سمجھا گیا ہے، کیونکہ یہ پابندی صرف 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے لیے ہے، اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین پر محرم کے بغیر شیشہ پینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :