مسافروں کے بہہ جانے کے خوف سے دیر کر دی،جنوبی کوریا کے عوام سے معافی مانگتا ہوں، کپتان جہاز لی جو سیوک

اتوار 20 اپریل 2014 06:59

سیول(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20اپریل۔2014ء)جنوبی کوریا میں چند دن قبل غرقاب ہونے والی مسافر بردار کشتی کے زیرِ حراست کپتان نے کہا ہے کہ انھوں نے ’مسافروں کا پانی میں بہہ جانے کی خوف کی وجہ سے‘ کشتی خالی کرانے کا حکم جاری کرنے میں دیر کر دی۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق لی جو سیوک کو ان کے عملے کے دو ارکان سمیت جمعے کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر بروقت کشی کو خالی کرانے کا حکم نہ دنیے پر تنقید کا سامنا ہے۔سیول نامی یہ ’فیری‘ شمال مغربی علاقے انچیون سے جیجو کے جنوبی سیاحتی جزیرے کی طرف جا رہی تھی کہ دو گھنٹے کے قلیل وقت میں الٹ کر سمندر کی تہہ میں غرق ہوگئی۔اس حادثے میں اب تک 28 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 268 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

(جاری ہے)

لاپتہ افراد میں بڑی تعداد میں سکول کے بچے بھی شامل ہیں۔

اس حادثے کے بعد 179 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔گزشتہ روز واقعے کی جاری تحقیقات کے دوران پتہ چلا تھا کہ جس وقت یہ بحری جہاز ڈوبا اس وقت اس کا کنٹرول ایک جونیئر اہلکار کے ہاتھ میں تھا۔اس کے بعد سرکاری وکلاء نے فیری کے کپتان اور عملے دیگر دو ارکان کی گرفتاری کے لیے عدالت سے وارنٹ جاری کرنے کو کہا تھا اور اب جنوبی کوریا کی نیوز ایجنسی یون ہاپ کا کہنا ہے کہ کشتی کے کپتان لی جون سیوی اب زیرِ حراست ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق 68 سالہ کپتان پر فرائض سے غفلت برتنے اور سمندری قوانین کی خلاف ورزی سمیت پانچ الزامات لگائے گئے ہیں۔لی جو سیوک سے پولیس نے پہلے بھی پوچھ گچھ کی تھی اور انھوں نے جمعے کو ٹیلی ویڑن پر متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے معافی بھی مانگی تھی۔حراست میں لینے کے بعد انھیں سنیچر کو ٹی وی پر دکھایا گیا۔ انھوں نے کہا:’میں اس نقصان کی وہ سے جنوبی کوریا کے عوام سے معافی مانگتا ہوں۔

میں متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگنے کے لیے اپنا سر جھکاتا ہے ہوں۔انھوں نے کہا کہ’میں کشتی کے راستے کے حوالے سے ہدایت جاری کیے اور اپنی آرام گاہ میں گیا اور پھر یہ واقعہ پیش آیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ’سمندر میں لہر بہت تیز تھی اور پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر مسافر بغیر ذہن بنائے کشتی سے اتر گئے اور اگر انھوں نے لائف جیکٹ نہ پہنی ہو اور اگر پہنی بھی ہو تو وہ آہستہ آہستہ پانی میں بہہ جائیں گے اور انھیں دیگر مشکلات کا سامان ہو گا۔

ابھی تک جہاز ڈوبنے کا اصل سبب معلوم نہیں ہو سکا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یا تو اس جہاز کا نچلا ڈھانچہ کسی چٹان سے ٹکرایا تھا یا پھر تیزی سے موڑ کاٹنے کی وجہ سے اس پر لادا سامان کھسک کر ایک طرف چلا گیا اور جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ ایک طرف کو جھک گیا۔اس جہاز کے لاپتہ مسافروں کو ڈھونڈنے کے لیے بڑی پیمانے پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن خراب موسم، دھند اور شدید لہروں کی وجہ سے غوطہ خوروں کو دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔

ابھی تک جہاز ڈوبنے کا اصل سبب معلوم نہیں ہو سکا ہے۔سمندر کی تہہ میں جہاز کیاندرونی حصوں میں ہوا بھری جا رہی ہے تاکہ اگر ان میں کوئی مسافر پھنسا ہوا ہے تو اسے ہوا مہیا کی جا سکے اور اس ہوا کی مدد سے جہاز کو دوبارہ سمندر کی سطح پر بھی لایا جا سکے۔کوسٹ گارڈ کے حکام نے جمعے کو اس بات کی تصدیق کی کہ چند غوطہ خور سمندر کی تہہ میں جہاز کے سامان لادنے والے حصے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

جمعے کو درجنوں ایمبولینسیں بندرگاہ پر جمع رہیں جسے ظاہر ہوتا ہے کہ امدادی کارروائیاں ایک دردناک مرحلے میں داخل ہو رہی ہیں۔کوسٹ گارڈ کے حکام لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو سمندر میں وہ مقام دکھانے لیگئے جس جگہ جہاز غرق ہوا تھا۔جمعے کو کوسٹ گارڈ کی ایک کشتی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئی جس میں سے تین لاشوں کو نکال کر ایمبولینسوں کے ذریعے مردہ خانے میں منتقل کیا گیا۔

کوسٹ گارڈ کے حکام نے فرانسیسی خبررساں ادارے کو بتایا کہ انھیں جو تین لاشیں ملی ہیں وہ سمندر کی سطح پر تیر رہی تھیں اور وہ جہاز کے اندرونی حصوں سے کوئی لاش نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔امدادی کارروائیوں کو جس انداز میں چلایا جا رہا ہے اس پر لاپتہ افراد کے رشتہ دار حکومت کے خلاف برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔