ملک بھرمیں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی شرح میں ہر گزرتے سال اضافہ،2013 میں 3002 بچوں کے ساتھ زیادتی،رواں سال یہ شرح 7.67 فی صد بڑھ گئی،رپورٹ

پیر 21 اپریل 2014 07:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21اپریل ۔2014ء)ملک بھرمیں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی شرح میں ہر گزرتے سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2013 میں 3002 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ رواں سال یہ شرح 7.67 فی صد بڑھ گئی ہے۔ 2012 میں 2788 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 2010 اور 2011 میں بچوں سے زیادتی کے بالترتیب 2255 اور2303 واقعات کی رپورٹ درج ہوئی۔ 2012 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2788 واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی، متاثرہ بچوں میں 799 لڑکے اور 1989 لڑکیاں شامل تھیں۔

ان میں سے تقریباً چھے فی صد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ”ساحل“ کے مطابق گذشتہ سال پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2003 ، سندھ میں 583، خیبر پختون خوا میں 139، اسلام آباد میں 134 ، بلوچستان میں 106، آزاد جموں و کشمیر میں 35 اور گلگت بلتستان میں 2 کیس درج کرائے گئے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق زیادتی کا شکار بچوں کے کیس درج کرانے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے مجموعی طور پر سال 2013 میں 3002بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

یعنی روزانہ اوسطاً 8 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یہ اعداد و شمار گذشتہ سال کی نسبت 7.67 فی صد زاید ہیں۔گذشتہ سال بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ اجتماعی زیادتی کے1225 کیس درج کرائے گئے جب کہ 148 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ صنفی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس سال لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

2013 میں2017 لڑکیوں اور 985 کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ تاہم لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی شرح بھی گذشتہ سال کی نسبت 23 فیصد زیادہ رہی۔

”ساحل“ کے مطابق گیارہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر 2013 میں ہراساں کرنے اور زیادتی کے 6130واقعات ہوئے، جن میں ملوث1474 افراد جان پہچان والے اور 1067 اجنبی تھے۔بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 77.69فی صد واقعات بند جگہوں (گھر، اسکول، مدرسے وغیرہ) اور 22.31 فی صد کیسز کھلی جگہوں پر رونما ہوئے۔53.76 فی صد بچوں سے ایک بار اور17.96 فی صد سے ایک سے زائد مرتبہ زیادتی کی گئی۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح دیہی علاقوں میں 57.46 فی صد اور شہری علاقوں میں 42.54 فی صد رہی۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”انیشیئیٹر ہیومن ڈیولپمنٹ “ کے صدر رانا آصف حبیب کا کہنا ہے کہ زیادہ تر 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے۔

اْنہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 28 سے 30 ہزار دکانیں ایسی ہیں جہاں زیادتی کا نشانہ بننے والوں کی موبائل ویڈیوز کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ لاہور، پشاور اور کراچی کے کچھ کاروباری مراکز اس گھناؤنے کاروبار کا گڑھ ہیں۔ کراچی میں ناظم آباد نمبر دو، جہانگیر پارک، عیسیٰ نگری، کیماڑی پر واقع غائب شاہ کا مزار، عالم شاہ کا مزار، عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی پارکنگ، ابراہیم حیدری، گودھرا کیمپ، سرجانی ٹاون، مچھر کالونی، سرجانی ٹاون، گڈاپ ٹاون میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر نہ صرف بچوں کے ساتھ زیادتی بلکہ اْن کی باقاعدہ خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے۔ صدر کے علاقے میں کچھ گروپ اس وقت سب سے زیادہ متحرک ہیں، جب کہ ”خیابان بدر“،”توحید کمرشل اسٹریٹ“،”لی مارکیٹ“، ”گلستان جوہر“ میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :