مودی کی اپنے ایک ساتھی کی مسلمانوں کیخلاف نفرت آمیز بیان کی مذمت،میں اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کو نامنظور کرتا ہوں، ایسے بیانات دینے والوں سے اپیل کرتا ہوں وہ اس قسم کی بیان بازی سے گریز کریں ،بیان

بدھ 23 اپریل 2014 08:21

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اپریل۔2014ء)بھارتی الیکشن میں وزارت عظمیٰ کے فیورٹ امیدوار نریندر مودی نے اپنے ایک پْرانے سیاسی دوست کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات کی مذمت کی ہے۔ دائیں بازو کی انتہا پسند ہندو جماعت ’وشو ہندو پریشد‘ )ورلڈ ہندو کونسل( کے سربراہ پروین ٹوگاڈیا نے اپنے ایک بیان میں مغربی بھارتی ریاست گجرات کے ہندووٴں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے محلوں سے مسلمانوں کو نکال باہر کریں۔

ٹوگاڈیا کے اس بیان پر مشتمل ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے اْن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ گزشہ ہفتے کے روز ٹوگاڈیا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، "ہم ہندو اکثریت میں ہیں، ہمیں اْنہیں )مسلمانوں کو( خوفزدہ کرنے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی جْرآت کرنی چاہیے"۔

(جاری ہے)

دریں اثناء ٹوگاڈیا کے ایک وکیل نے اس ویڈیو کلپ کو جھوٹ، بد دیانتی اور فتنہ پروری قرار دیا ہے۔

اْدھر سخت گیر موقف والی قوم پرست ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے لیڈر اور حالیہ انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے لیے اب تک فیورٹ تصور کیے جانے والے نریندر مودی نے ٹوگاڈیا کے مسلم دشمن بیان کو رد کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں لیڈر 80 کے عشرے میں ہندو قوم پرستوں کے بنیادی گروپوں سے وابستہ رہے ہیں اور اس طرح مودی اور ٹوگاڈیا کبھی ایک دوسرے کے بہت قریب رہ چکے ہیں۔

مودی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں تحریر کیا ہے:"بی جے پی کے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے اس طرح کے سستے بیانات کی وجہ سے انتخابی مہم کی توجہ ترقی اور اچھی حکمرانی جیسے مسائل سے ہَٹ رہی ہے"۔مودی نے اپنے اس پیغام میں مزید کہا، "میں اس قسم کے تمام غیر ذمہ دارانہ بیانات کو نامنظور کرتا ہوں اور ایسے بیانات دینے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کی بیان بازی سے گریز کریں"۔

ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کے لیڈر اور ریاست گجرات میں 2002 ء سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز نریندر مودی کو بھارت میں مذہبی تفریق کی ہلکے ہلکے مگر مسلسل سلگتی ہوئی آگ کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ناقدین کے بقول مودی کی طرف سے ہندووٴں کے ایک مقدس شہر واراناسی (بنارس) سے ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ ان کے قوم پرست ہندو ہونے کے تصور کو مزید تقویت دیتا ہے۔

ہندو ازم کے احیاء کی تحریک سے وابستہ 63 سالہ مودی اس بار کے انتخابات میں خود کو اقتصادی معاملات سلجھانے اور ملکی ترقی کا چیمپئن قرار دے رہے ہیں۔ تاہم انہیں 2002ء میں گجرات کے خونریز مذہبی فسادات کو روکنے کے لیے ناکافی اقدامات کرنے کی بناء پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مودی اس وقت بھی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اْن فسادات میں کم ازکم ایک ہزار افراد مارے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔

مودی ایسے الزامات مسترد کرتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے کی جانے والی تحقیقات میں بھی ان کے خلاف اس حوالے سے شواہد نہیں مل سکے تھے۔گزشتہ ہفتے بھارت کے مشرقی صوبے بہار میں بی جے پی کے ایک ہندو قوم پرست لیڈر گری راج سنگھ نے کہا تھا، "63 سالہ مودی کے ناقدین کو پاکستان جانا ہو گا"۔ گزشتہ سال ستمبر میں ہندو مسلم فسادات کی زَد میں آنے والے ایک انتخابی حلقے میں مودی کے ایک قریبی ساتھی امیت شاہ کے ایک متنازعہ بیان کے سبب الیکشن کمیشن کی جانب سے اْن پر عارضی طور پر انتخابی مہم چلانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ مودی کے اس ساتھی نے ووٹروں پر زور دیا تھا کہ وہ بیلٹ بکس کی مدد سے مسلمانوں سے انتقام لیں۔