پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے دو ماہ میں اسلحہ لائسنس کے حوالے سے مکمل تفصیلات طلب کر لیں، ڈی جی رینجرز سندھ اور پنجاب کی اجلاس میں عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار، بلوچستان حکومت کی جانب سے 5 کروڑ کا جہاز13 کروڑ85 لاکھ میں خریدنے کا معاملہ اصولی طور پر نیب کو بھجوانے کا فیصلہ

بدھ 23 اپریل 2014 08:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اپریل۔2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی) کی ذیلی کمیٹی نے دو ماہ میں اسلحہ لائسنس کے حوالے سے مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں اور ڈی جی رینجرز سندھ اور پنجاب کی عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے جبکہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ 2006 ء میں بلوچستان حکومت کی جانب سے 5 کروڑ میں جہاز خریدنے کی اجازت ملنے پر غیر قانونی طور پر 13 کروڑ85 لاکھ روپے میں یہ جہاز خریدا گیا ،کمیٹی نے ائیر کرافٹ خریدنے کے معاملے کو اصولی طور پر نیب کو بھجوانے کا فیصلہ کرلیا ۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ۔کمیٹی نے سندھ اور پنجاب کے ڈی جی رینجرز کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کو آسان نہ لیا جائے اور رینجرز کے سربراہوں کی شرکت یقینی بنائی جائے۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے کہا کہ اگر حکومت نے بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ کر دیا تھا تو اس مدمیں اٹھنے والے اخراجات وزارت داخلہ اور اس کے محکموں کو کیوں ادا نہیں کئے۔ آڈٹ اس سارے معاملے کو دیکھے۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت اجلاس میں فنانس کو سمجھنے والا افسر لایا جائے تا کہ معاشی معاملات درست طریقے سے چلیں ۔کمیٹی میں رکن شیخ رشید نے کہا کہ ملک میں ایک بھی اسلحہ لائسنس تصدیق شدہ نہیں ہے ۔

سارا اسلحہ غیرقانونی سے وزارت داخلہ تجدید نہیں کررہی ہے ۔اجلاس میں وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ ملک میں71723 اسلحہ لائسنس کے ٹوکن ایشو ہوئے جس میں21913 ٹوکن ممنوعہ اسلحہ کے تھے جبکہ39470 غیر ممنوعہ اسلحہ کے ٹوکن ایشو ہوئے ۔2002 سے پابندی لگنے تک ایک لاکھ26 ہزار 601اسلحہ فارم تقسیم کئے گئے اور ایک لاکھ ایک ہزار اسلحہ فارم پرنٹ ہوئے ۔60 ہزار38 بک لیٹس ایشو ہوئی جن میں35888 بک لیٹس کی تصدیق کی جا چکی ہے باقی کی تصدیق کی جارہی ہے جو جون تک مکمل کر لی جائے گی ۔

کمیٹی نے اسلحہ لائسنس کے حوالے سے دو ماہ میں مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔کمیٹی نے2008-09 میں غیر قانونی طور پر حکومتی اخراجات میں سے4 کروڑ18 لاکھ روپے کے خرچ کرنے کے معاملے پر انکوائری کر کے رپورٹ طلب کر لی ہے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بلوچستان حکومت نے5 کروڑ کے ائیر کرافٹ کی خریداری کے لئے ٹینڈر دیا تاہم بعد ازاں 13 کروڑ 85 لاکھ روپے خریدا گیا ۔

حکام نے بتایا کہ سٹیرنگ کمیٹی اس کی منظوری دی ۔کمیٹی نے اس معاملے کو نیب کے حوالے کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے تاہم اس حوالے سے حکام کی جانب سے معاملے پر مزید سننے کی درخواست قبول کرتے ہوئے معاملے کو موخر کر دیا۔ کمیٹی کو خیبر پختونخواہ ایف سی کی جانب سے اسلحہ کی خریداری کے لئے ایک کروڑ 37 لاکھ روپے کی رقم نجی بینک کے اکاؤنٹ میں رکھنے کے معاملے کو نمٹا دیا۔

ایف سی حکام نے بتایا کہ ایک کمپنی کے لئے اٹلی سے383 پسٹل منگوانے تھے مگر اس کمپنی کو اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اسلحہ نہیں منگوایا جا سکا۔ اس لئے رقم کی عارضی طور پر ایف سی کے اکاؤنٹ میں رکھا گیا تھا تاہم جب آڈٹ نے اعتراض کیا تو رقم حکومتی خزانے میں جمع کر دی گئی ۔ کمیٹی نے معاملے کو نمٹادیا۔کمیٹی نے ایف سی کی جانب سے جوانوں کی تنخواہ سے 130 غیر قانونی طورپر کاٹنے کے معاملے کو بھی نمٹا دیا۔ کمیٹی نے کہا کہ سرکاری پیسہ نجی بینک میں ر کھنا جرم ہے ۔کمیٹی نے چار کروڑ سے ز ائد رقم سرکاری وصولیاں کر کے غیرقانونی طور پر نجی اکاؤنٹ میں رکھنے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داران کا کیس دائر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔