”غیرت کا مظاہرہ“بحری جہاز ڈوبنے کے معاملے پر جنوبی کوریا کے وزیراعظم مستعفی ،بحری جہاز میں 300 افراد سوار تھے جن میں سے 187 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں

پیر 28 اپریل 2014 08:33

سیول(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اپریل۔2014ء) بحری جہاز ڈوبنے کے معاملے پرجنوبی کوریا کے وزیراعظم مستعفی ہو گئے ہیں۔ بحری جہاز میں 300 افراد سوار تھے جن میں سے 187 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔جنوبی کوریا کے وزیراعظم نے بحری جہاز حادثے سے نمٹنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔جنوبی کوریا کے وزیراعظم چنگ ہونگ ون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بحری جہاز حادثے کو روکنے اور حادثے سے نمٹنے میں ناکامی پر معافی مانگتا ہوں۔

بطور وزیراعظم اپنے آپ کو حادثے کا ذمے دار سمجھتا ہوں جس پر عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی استعفیٰ دینا چاہتے تھے تاہم جانے سے پہلے امدادی کارروائی کو ترجیح دی۔واضح رہے کہ 16 اپریل کو جنوبی کوریا کا بحری جہاز سمندر میں ڈوب گیا تھا جس میں طلبا سمیت 300 سے زائد افراد سوار تھے۔

(جاری ہے)

حادثے بعد اب تک 187 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں باقی تاحال لاپتا ہیں۔

وزیراعظم چنگ ہانگ ون نے اعلان کیا ہے کہ حال ہی میں غرقاب ہونے والی کشتی کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر تنقید کے پیشِ نظر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔اس کشتی پر 476 افراد سوار تھے اور جب کشتی ٹیڑھی ہونے کے بعد غرقاب ہوئی تو 174 مسافروں کو بچا لیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد جنوبی سیول کے ایک سکول کے طلبا اور اساتذہ تھے۔

سیول نامی یہ ’فیری‘ شمال مغربی علاقے انچیون سے جنوبی سیاحتی جزیرے جیجو کی طرف جا رہی تھی کہ دو گھنٹے کے قلیل وقت میں الٹ کر سمندر کی تہہ میں غرق ہوگئی۔

اب تک 183 لاشیں نکال لی گئی ہیں تاہم سینکڑوں لاپتہ افراد کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین کئی مرتبہ امدادی کارروائیوں کی سست روی کے بارے میں شکایات کرتے رہے ہیں۔

غرقاب ہونے والی مسافر بردار کشتی کے جہاز رانی سے منسلک 15 رکنی عملے کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف مجرمانہ غفلت کے الزامات بھی ہیں۔وزیراعظم نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ وہ استعفیٰ پہلے دینا چاہتے تھے تاہم حادثے سے نمٹنا اس وقت زیادہ اہم تھا اور ان کے خیال میں جانے سے پہلے امدادی کام کروانا ذمہ دارانہ رویہ تھا۔مگر اب میں نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم میں کسی انتظامیہ پر بوجھ نہ بنوں۔

حادثے کے اگلے روز جب وزیراعظم سوگوار والدین سے ملاقات کے لیے گئے تھے تو ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور کسی انھیں پانی کی ایک بوتل مارنے کی کوشش کی۔جمعے کے روز غوطہ خوروں کو 30 افراد کی گنجائش والے کمرے میں لائف جیکٹ پہننے 48 طلبہ کی لاشیں ملی۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک کمرے سے اتنے سارے لوگوں کی لاشیں ملنے کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت کو کشتی کے ٹیڑھا ہونے پر کمرے میں بھاگ کر جانا پڑا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کشتی کے 111 کمروں میں سے ابھی تک 35 کمروں کی ہی تلاشی لی جا سکی ہیکشتی میں تلاش کے عمل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ عمل کب تک مکمل ہوگا۔بحریہ کے کپتان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اعصاب شکن کام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کو نکال کر لانے سے کہیں زیادہ مشکل کام انہیں تلاش کرنا ہے کیونکہ غوطہ خور ایک وقت میں دس منٹ سے زیادہ کشتی کے اندر نہیں رہ سکتے۔ایک غوطہ خور کا کہنا ہے کہ جب آپکے ارد گرد ہر چیز تیر رہی ہو تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے کہ آپ کہاں ہیں۔

متعلقہ عنوان :