لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ڈی چوک پر مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر پولیس کا بہیمانہ تشدد، آمنہ مسعود جنجوعہ 12افراد گرفتار ، کوریج کرنے والے صحافیوں پر بھی پولیس تشدد ، صحافتی تنظیموں، سیاسی راہنماوٴں،انسانی حقوق کی تنظیموں اورسول سوسائٹی کی واقعہ کی مذمت، ریڈزون میں کسی بھی قسم کے جلسے، مظاہرے یا تقریبات پر پابندی ہے ، لاپتہ افراد کے لواحقین نے ضلعی انتظامیہ سے مظاہرے کے لئے این او سی بھی جاری نہیں کیا تھا ،اعظم تیموری کا موقف ،وزیر اعظم کی ہدایات آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت تمام مظاہرین رہا ، اے ایس پی سیکرٹریٹ، اے ایس پی سٹی واقعے کے ذمہ دار قرار ، عہدوں سے برطرف

منگل 29 اپریل 2014 10:37

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29 اپریل۔2014ء) لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاوٴس کے سامنے ڈی چوک پر مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر پولیس کا بہیمانہ تشدد، آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت سمیت 12افراد کو پولیس نے گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیاجبکہ مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی پولیس نے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔

راولپنڈی اسلام آباد کی صحافتی تنظیموں، سیاسی راہنماوٴں،انسانی حقوق کی تنظیموں اورسول سوسائٹی کی جانب سے واقعہ کی مذمت۔دوسری جانب اے آئی جی آپریشنز سلطان اعظم تیموری نے گرفتاریوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ریڈزون میں کسی بھی قسم کے جلسے، مظاہرے یا تقریبات پر پابندی ہے ، لاپتہ افراد کے لواحقین نے ضلعی انتظامیہ سے مظاہرے کے لئے این او سی بھی جاری نہیں کیا تھا اور وہ ڈی چوک سے آگے بڑھتے ہوئے پارلیمنٹ ہاوٴس کی طرف مارچ کر رہے تھے جس پر پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق پیر کی شام پارلیمنٹ ہاوٴس کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے چیئرپرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہمراہ ڈی چوک پرپر امن مظاہرہ کرنے والی خواتین سمیت درجنوں مظاہرین پر وفاقی پولیس نے ہلہ بول دیا اور مظاہرین کو زبردستی احتجاج ختم کروانے کی کوشش پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان کے درمیان تلخ کلامی سے بات بڑھتے ہوئے پرتشدد مظاہرہ میں تبدیل ہوگئی جس کے بعد پولیس نے پہلے مظاہرین اور موقع پر موجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شدید زخمی کردیا اور اس کے بعد ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت کئی خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اور گھسیٹتے ہوئے زبردستی گرفتار کر کے گاڑیوں میں ڈال کر پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔

وفاقی پولیس کی جانب سے خواتین مظاہرین کے علاوہ کئی دوسرے مظاہرین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن میں کم عمر بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں جبکہ صحافیوں کو زبردستی واقعہ کی کوریج سے روکا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔پولیس کے مطابق مظاہرین پارلیمنٹ ہاوٴس کی جانب سے بڑھ رہے تھے جبکہ مظاہرین نے پولیس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ ڈی چوک پر پر امن مظاہرہ کر رہے تھے جہاں وفاقی پولیس نے پہلے انہیں مظاہرے ختم کر کے جانے کو کہا اور بعد ازاں ان پر تشدد شروع کردیا، لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس کے شیل پھینک کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مظاہرین پارلیمنٹ ہاوٴس جانب مارچ کر رہے تھے۔

اس حوالے سے اے آئی جی آپریشنزسلطان اعظم تیموری نے خبر رساں ادارے کو بتایا کوریڈ زون میں کسی بھی قسم کے مظاہرے، ریلی، جلسے یا تقریب کی اجازت نہیں اور حکومت نے سیکورٹی وجوہات کی بناء پر یہاں ایسے کاموں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم لاپتہ افراد کے حق میں مظاہرہ کرنے والے مظاہرین نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے زبانی یا تحریری طور پر کوئی اجازت نامہ حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے این او سی حاصل کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین پارلیمنٹ ہاوٴس کی جانب مارچ کر رہے تھے جس کے باعث پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تاہم اس دوران مظاہرین نے پتھراوٴ کیا جس سے تین پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے اور جواب پولیس کو انہیں منتشر کرنے کے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کرنا پڑا ۔ادھروزیر اعظم میاں نواز شریف کی ہدایات پر ڈی چوک سے گرفتار کیے گئے مظاہرین کو چیئرپرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ کے ہمراہ رہا کر دیا گیا اور وزارت داخلہ نے اے ایس پی سیکرٹریٹ اور اے ایس پی سٹی کو واقعہ کوکا ذمہ دار ٹھہرتے ہوء عہدوں سے برطرف کر دیا ہے تاہم مظاہرین پر لاٹھی چارج و گرفتار کرنے کے حکم دینے والے ایس پی سٹی کو بچا لیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق وزارت داخلہ نے ڈی چوک پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے پرامن مظاہرہ کرنے والے مظاہرین پر تشدد و گرفتار کرنے کے واقعہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد تمام گرفتار مظاہرین کو رہا کر دیا اور واقعہ میں اے ایس پی سٹی اور اے ایس پی سیکرٹریٹ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے برطرف کر دیا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق مظاہرین کو پر لاٹھی چارج، آنسو گیس و گرفتاری کا حکم ایس پی سٹی کیپٹن (ر) مستنصر فیروز نے دیا تھا اور 12مظاہرین کو گرفتار کیا جانے کے بعد ایس پی سٹی نے بیان بھی دیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف ہائی سیکیورٹی زون میں داخلے پر مقدمہ درج کیا جائے گا تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے کی گئی کاروائی میں ایس پی سٹی کی بجائے اے ایس پی سٹی اور اے ایس پی سیکرٹریٹ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ایس پی مستنصر فیروز کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی۔

متعلقہ عنوان :