قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف وانسانی حقوق کا جلد مردم شماری کرانے کا مطالبہ ،ایوان میں اقلیتی نشستیں بڑھانے کا بل مزید بحث کیلئے موخر کردیا، مردم شماری سے پہلے آبادی کے غلط اندازے لگائے جارہے ہیں، ملک کی آبادی 18 کروڑ سے بڑھ کر 25 کروڑ تک جا پہنچی ہے ہمیں حقائق کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا،چوہدری محمود بشیر ورک،کمیٹی کا بلوچستان کے ضلع لورا لائی کیلئے ہائیکورٹ کے بینچ کی تشکیل پر اتفاق رائے،معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے کمنٹس تک انتظار کا فیصلہ، وزارت قانون و انصاف کو 15 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

منگل 29 اپریل 2014 10:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29 اپریل۔2014ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف وانسانی حقوق نے جلد مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان میں اقلیتی نشستیں بڑھانے کا بل مزید بحث کیلئے موخر کردیا، جبکہ چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک نے کہاہے کہ مردم شماری سے پہلے آبادی کے غلط اندازے لگائے جارہے ہیں، ملک کی آبادی 18 کروڑ سے بڑھ کر 25 کروڑ تک جا پہنچی ہے ہمیں حقائق کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا، کمیٹی نے بلوچستان کے ضلع لورا لائی کیلئے ہائیکورٹ کے بینچ کی تشکیل پر اتفاق رائے اورمعاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے کمنٹس تک انتظار کا فیصلہ کرتے ہوئے وزارت قانون و انصاف کو ہدایت کی ہے کہ 15 روز میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے۔

پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف و انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں اراکین کمیٹی، وزارت قانون انصاف اور الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اقلیتی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر و دیگر کی جانب سے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا گیا بل زیر بحث آیا جس میں سفارش کی گئی ہے کہ قومی اسمبلی میں اقلیتی برادری کی نشستیں 10 سے بڑھا کر 16 کیا جائے کیونکہ آبادی کے تناسب سے نمائندگی کم ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے تمام اراکین سے رائے طلب اور ووٹنگ کی گئی۔

اس موقع پر اراکین کمیٹی نے آئین کی مختلف شقوں کا حوالہ دیا اور کہاکہ 18ویں ترمیم سے پہلے 216 نشستیں صرف مسلم اکثریت کیلئے مختص تھیں جبکہ 18ویں ترمیم کے بعد اس شرط کو ختم کرتے ہوئے جنرل نشستوں کا نام دیاگیاہے لہٰذا غیر مسلم پاکستانی اب جنرل الیکشن کے ذریعے براہ راست منتخب ہوکر آسکتے ہیں جس پر آسیہ ناصر نے کہاکہ فی الوقت ایسا ماحول نہیں کہ براہ راست کوئی اقلیتی رکن جیت کر آئے۔

تحریک انصاف کے رکن کمیٹی انجینئر علی محمد ایڈووکیٹ نے کہاکہ ملک میں فی الوقت اتنا اتفاق رائے نہیں ہے کہ ایک اقلیتی رکن آسانی سے جیت کر اسمبلی میں پہنچے جبکہ ہم نے اپنے معاشرے میں لال کڑتی جیسے علاقے متعارف کرائے جس سے محرومیاں بڑھی ہیں اور غریب اقلیتی اراکین اسمبلیوں کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ جس پر مسلم لیگ ن کے رکن کمیٹی چوہدری اشرف نے کہاکہ ہمارے پڑوسی ملک مسلم اقلیت میں ہیں لیکن وہاں کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہیں سب جنرل الیکشن لڑکر ایوان میں پہنچتے ہیں جبکہ ہم نے خواتین اور اقلیتی برادری کیلئے نشستیں مختص کررکھی ہیں جوکہ ان کے احترام کی واضح دلیل ہیں جس پر آسیہ ناصر نے کہاکہ ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے اقلیتوں کیلئے الگ سے نشستیں مختص کررکھی ہیں لیکن کچھ مسائل درپیش ہیں اور ہم بھی اپنی عوام کو جوابدہ ہیں اور کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ نشستیں بڑھائی جائیں جس پر چیئرمین محمود بشیر ورک نے کہاکہ اقلیتی برادری کا احترام اپنی جگہ لیکن اقلیتی برادری میں مسیحی برادری کے ساتھ ساتھ ہندو، سکھ، قادیانی و دیگر بھی شامل ہیں ہمیں اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا کہ پھر ان کا کوٹہ کیسے مختص ہوگا جس پر رکن کمیٹی محمد خان شیرانی نے کہاکہ ہمیں قوم کو تقسیم در تقسیم نہیں کرنا چاہیے اس سے وحدت قومی کو نقصان ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے رکن کمیٹی ایاز سومرو نے کہاکہ اس بل کو موخر کیا جائے اور مزید بحث کی جائے جنرل نشستوں پر اقلیتی برادری حصہ لے کیونکہ کوئی شرط نہیں ہے لیکن ایک اور بات بھی اہم ہے کہ وزیراعظم کے پاس مردم شماری کی سمری گئی ہوئی ہے جب تک مردم شماری نہیں ہوتی اس وقت تک سب باتیں قبل از وقت اور بے معنی ہیں۔ اقلیتوں کو خیرات نہیں دینا چاہیے بلکہ ان کے جائز حقوق کی بات ہونی چاہیے جس پر بل کی موور آسیہ ناصر نے کہاکہ اقلیتی برادری خیرات کسی طور پر قبول نہیں کرے گی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جنرل نشست سے جیت کر آئی ہوں اور عوام کا ہم پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا کسی محب وطن پے ہونا چاہیے۔

اس موقع پررکن کمیٹی عائشہ رضا نے کہاکہ اگر سیاسی جماعتیں برابری کی بنیاد پر ٹکٹوں کی تقسیم کریں تو اقلیتی اور خواتین نشستوں کا معاملہ ہی حل ہوجائیگا مگرفی الوقت ایسا نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن ایس اے اقبال قادری کاموقف تھا کہ فی الوقت ماحول ایسا ہے کہ اقلیتی عوام جنرل نشستوں پر نہیں جیت سکتے جبکہ کمیٹی کا اختیار صرف بل پر غور کرنا ہے موورپر بل واپس لینے کا پریشر نہیں ڈال سکتی کیونکہ یہ بل ایوان میں پیش ہوکر کمیٹی کے پاس پہنچا ہے ہمیں صرف اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔

اس موقع پر چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک نے کہاکہ ہندوستان کا ذکر کیاگیاہے لیکن وہاں سیکولر نظام ہے جبکہ پاکستان مذہبی بنیاد پر معروض وجود میں آیا ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ یہاں اقلیتی برادری، خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاتاہے اور ان کی نمائندگی دونوں ایوانوں میں موجود ہے جس پر تحریک انصاف کے رکن علی محمد ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم کیوں دنیا پر باور نہیں کراسکتے ہیں یہاں انسانی حقوق کی صورتحال بہت سے نام نہاد مہذب معاشروں سے بہترہے۔

سیر حاصل بحث کے بعد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بل کو مردم شماری ہونے تک موخر رکھا جائے اس موقع پر چیئرمین محمود بشیر ورک نے کہاکہ ہماری آبادی 18کروڑ نہیں بلکہ اب 25 کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے ۔ کمیٹی اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ہی رکن مولانا امیر زمان کا بل بھی زیر بحث آیا جس میں مطالبہ کیاگیا ہے کہ بلوچستان کے علاقے لورا لائی میں ہائیکورٹ بینچ تشکیل دیا جائے کیونکہ دور دراز کی مسافت اور ٹرانسپورٹ کی عدم سہولت کے باعث سستے انصاف کی فراہمی میں مشکلات ہیں۔

اس موقع پر ایس اے اقبال قادری، محمد خان شیرانی، ایاز سومرو، علی محمد ایڈووکیٹ، چوہدری اشرف و دیگر نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا ۔ جس پر چیئرمین نے کہاکہ معاملے پر چیف جسٹس کے کمنٹس کا انتظار ہے البتہ کمیٹی اتفاق کرتی ہے کہ لورالائی میں انصاف کی فراہمی کیلئے بینچ کی تشکیل ضروری اور علاقے کے لوگوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی رائے ضروری ہے جس پر کمیٹی نے مزید کہاکہ 15روز میں امید ہے چیف جسٹس آف پاکستان کی رپورٹ آجائیگی اور اگر نہیں بھی آئیگی تو کمیٹی اس معاملے پراپنا متفقہ فیصلہ سنادے گی البتہ وزارت قانون و انصاف کو ہدایت کی گئی ہے کہ 15روز میں اس معاملے پر کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔