لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد و گرفتاریاں، وزیر اعظم کا نوٹس وفاقی پولیس نے ہوا میں اڑا دیا ،ایس پی سٹی کی ہدایات پر وفاقی پولیس نے ایس ایچ او تھانہ کوہسار کی مدعیت میں لاپتہ افراد کے300 لواحقین کے خلاف کار سرکار میں مداخلت، پولیس اہلکاروں پر حملہ اور دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کر لیا

بدھ 30 اپریل 2014 02:38

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30اپریل۔2014ء) ُلاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد اور گرفتاریوں پر وزیر اعظم کی طرف سے لیا گیا نوٹس وفاقی پولیس نے ہوا میں اڑادیا،ایس پی سٹی کی ہدایات پر وفاقی پولیس نے ایس ایچ او تھانہ کوہسار چودھری عابد حسین کی مدعیت میں لاپتہ افراد کے300 لواحقین کے خلاف کار سرکار میں مداخلت، پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے اور دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق تھانہ کوہسار پولیس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے پرامن احتجاج کرنے والے لواحقین میں سے 300افراد کے خلاف کار سرکار میں مداخلت، دفعہ 144کی خلاف ورزی و دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق ایس پی سٹی کیپٹن مسنتصر فیروز کی ہدایات پر ایس ایچ او تھانہ کوہسار چودھری عابد حسین کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 250/14زیر دفعہ 353/186 147/148 اور 188تعذیرات پاکستان کے تحت 250سے تین سو کے قریب لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

(جاری ہے)

پولیس کی جانب سے اس ضمن میں درج کی گی ایف آئی اے کے مطابق ”جیو بلڈنگ ڈی چوک میں 300کے قریب افراد نے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی اور ریڈ زون میں داخل ہوتے ہوئے پریڈ ایونیو کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی جن کو موقع پر موجود سٹی مجسٹریٹ و افسران کی ہدایات پر روکا گیا تو مذکورہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراوٴ شروع کر دیا جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا تاہم مظاہرین کی جانب سے پتھراوٴ جاری رہا اور اس کے نتیجے میں پولیس اہلکارعرفان،فضل حق،محمد ثقلین،محمد فاروق،فخرالزمان،بابر خان،محمد عمران،محمد اصغر،و دیگر شدید زخمی ہوگئے جن کوعلاج کے لئے پولیس کلینک ہسپتال منتقل کیا گیا اور اس کے بعد مذکورہ نامعلوم افراد جن کی تعداد اڑھائی سو سے تین سو کے قریب کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کی تفتیش سب انسپکٹر محمد منشاء کو سونپی گئی ہے۔

پولیس کے مطابق نامزد ملزمان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔واضح رہے پیر کی شام لاپتہ افراد کے لواحقین کو مبینہ طور پر پولیس نے ڈی چوک سے زبردستی احتجاجی کیمپ ختم کرنا کا کہاتھا اور انکار پر مظاہرین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج و آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جس سے کئی مظاہرین شدید زخمی ہوگئے تھے جبکہ سیکرٹریٹ پولیس نے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ سمیت 12خواتین و مرد مظاہرین کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کیا تھا تاہم واقعہ کی خبر نشر ہونے پر وزیر اعظم نے واقعہ کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد مظاہرین کو رہا کر دیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے پرامن مظاہرین پر تشدد کرنے اور انہیں گرفتار کرنے والے ذمہ دار پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی بھی حکم دیا تھا

جس پر وزارت داخلہ نے اے ایس پی سٹی و اے ایس پی سیکرٹریٹ کو معطل کر کے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیردل کی سربراہی میں شروع کی تھی تاہم اس دوران وفاقی پولیس نے وزیر اعظم کی طرف سے واقعہ کا نوٹس لئے جانے کے باوجود لاپتہ افرد کے لواحقین کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے اور ایف آئی آر میں اڑھائی سو سے تین سو افراد کو خواتین سمیت نامزد کیا گیا ہے۔

سب سے دلچسب امر یہ بھی ہے کہ واقعہ تھانہ سیکرٹریٹ پولیس کے علاقہ میں پیش آیا اور مظاہرین کو گرفتار بھی سیکرٹریٹ پولیس کی طرف سے کیا گیا تھا مگر وفاقی پولیس اس حوالے سے تھانوں کی حددد کے قوانین کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور واقعہ کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے ۔