پاکستان میں صحافیوں کو تمام اطراف سے قتل،دہشت اور دیگر قسم کے تشدد کا مستقل خطرہ رہتا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل،خطرے میں انٹیلی جنس ادارے سیاسی جماعتیں اور طالبان جیسے مسلح گروپ شامل ہیں، حکام میڈیا ورکروں کیخلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں، 2008ء میں جمہوری دور کی بحالی کے بعد سے 35قتل کے مقدمات میں ایک کے سوا کسی میں بھی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا یا گیا، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ

بدھ 30 اپریل 2014 02:41

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30اپریل۔2014ء)انسانی حقوق کی بین الاقوامی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو تمام اطراف سے قتل،دہشت اور دیگر قسم کے تشدد کا مستقل خطرہ رہتا ہے اور اس میں انٹیلی جنس ادارے سیاسی جماعتیں اور طالبان جیسے مسلح گروپ سب شامل ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے”پاکستان میں صحافیوں پر حملے،تمہارے لئے ایک گولی چن لی گئی ہے“کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام میڈیا ورکروں کیخلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2008ء میں جمہوری دور کی بحالی کے بعد سے 35قتل کے مقدمات کا جائزہ لیا لیکن ایک کے سوا کسی میں بھی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان صحافیوں کے علاوہ بہت سے صحافیوں کو اس عرصے میں دھمکیاں دی گئیں،ہراساں کیا گیا،اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا یا ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیاء پیسیفک کے بارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ گرفتھز نے کہا کہ پاکستان میں صحافی برادری گھیرے میں ہے اور خاص طور پر قومی سلامتی کے امور اور انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ہر طرف سے خاص نشانہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو مستقل خطرہ ہے کہ کوئی بھی حساس خبر شائع کرنے پر کسی بھی طرف سے ان کیخلاف تشدد کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں 100سے زائد میڈیا ورکروں کے انٹرویو پیش کئے گئے ہیں اور70کیسوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔بعض صحافیوں نے انٹرویوز کے دوران دعویٰ کیا کہ انہیں فوجی جاسوس ادارے سے خطرہ ہے جبکہ بعض نے کچھ اور نام پیش کئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر چہ اغواء تشدد اور قتل کے بعض واقعات میں آئی ایس آئی کا نام لیا گیا ہے لیکن اس کا کوئی بھی حاضر سروس اہلکار مجرم قرار نہیں دیا گیا،اس قسم کے واقعات میں پہلے صحافیوں کو ٹیلی فون پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پھر اغواء،تشدد اور بعض اوقات قتل کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں غیر ریاستی گروپوں کی طرف سے بھی صحافیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے،ملک بھر میں طاقتور سیاسی حلقے صحافیوں پر کوریج کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں،کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور مذہبی گروہ اہلسنت والجماعت سمیت دیگر کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں یا قتل کردیا جاتا ہے۔

شمال مغربی صوبہ بلوچستان میں طالبان،لشکر جھنگوی اور دیگر لسانی بلوچ مسلح گروپوں کی طرف سے صحافیوں کو قتل اور حملوں کا سامنا ہوتا ہے۔

پاکستان کے وسطی صوبہ پنجاب میں بھی صحافیوں کو طالبان اور لشکر جھنگوی سے منسلک گروپوں سے خطرہ رہتا ہے۔رپورٹ کے مطابق تشدد اور حملوں کی اس لہر کے باوجود پاکستانی حکام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے،حتی کہ ان حملوں کی مناسب تحقیقات بھی نہیں کی گئیں،صرف بڑے مقدمات کی تفصیلی تحقیقات کی گئی ہیں اور یہ بھی اس وقت ہوا ہے کہ جب بہت زیادہ شور مچایا گیا ہے۔

ڈیوڈ گریفتھز نے کہا کہ حکومت نے صحافیوں پر حملوں کی تفتیش کیلئے پبلک پراسیکیوٹر مقرر کرنے سمیت اقدامات کا وعدہ کیا تھا لیکن چند ٹھوس اقدامات ہی اٹھائے گئے،ایک اہم قدم یہ ہوگا کہ پاکستان اپنے فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے بارے میں تفتیش کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ صحافیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے،اس سے ان لوگوں کو طاقتور پیغام ملے گا جو صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ وہ اب ایسا کرنے میں آزاد نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے میڈیا ادارے بھی صحافیوں کی مناسب تربیت ،ان سے تعاون اور امداد کو یقینی بنائیں اور اس مقصد کیلئے انہیں خطرات سے بچانے کے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ڈیوڈ گریفتھز نے کہا کہ فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان میں میڈیا کو خاموش کرایا جاسکتا ہے،کیونکہ خوف کے سائے آزادی اظہار اور پاکستان بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :