بھارت کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کا گجرات میں دور اقتدار مسلمانوں کیلئے قیامت بن گیا،مسلمانوں کی اکثریت ہندوووٴں کے ساتھ ہی رہنا نہیں چاہتی

جمعہ 2 مئی 2014 06:11

احمد آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2مئی۔ 2014ء) بھارت کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ریاست گجرات کی معاشی نمو کا سہرہ ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ اور بھارت کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور میں ہونے والے فسادات نے مسلمانوں کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ اب انہیں ریاست کے باہر ہی آزادی کا احساس ہوتا ہے اور اکثریت ہندوووٴں کے ساتھ ہی رہنا نہیں چاہتی۔

بھارتی ریاست گجرات میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان طرز رہائش اور فکری سوچ کی تفریق کا اندازہ لگانا ہو تو دارالحکومت احمد آباد سے اچھی مثال شائد کوئی نہ ہو۔ جوہا پورہ کا علاقہ احمد آباد میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے جہاں 4 لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ 2002 میں یہاں کی آبادی 85 ہزار نفوس پر مشتمل تھی لیکن 12 برس قبل جب ہزاروں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا اور اس سے کہیں زیادہ خواتین کی آبرو ریزی کی گئی تو مسلمانوں میں مل کر رہنے کا احساس پیدا ہوا اور آج اس علاقے میں ریاست کے کسی بھی علاقے سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔

(جاری ہے)

2002 کے فسادات کے بعد علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کو لگائے گئے زخم تو کسی نہ کسی صورت بھر گئے ہیں لیکن روحوں اور ذہنوں کے زخم کسی صورت مندمل ہوتے نظر نہیں آرہے اور ہر روز حکومت کی جانب سے بھی انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ایک اقلیت ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ جوہا پورہ نہیں آتی اورمسلمانوں کو پینے کا پانی میسر نہیں،سیوریج نظام انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔

جوہا پورہ کے بالکل سامنے بنی وہ تمام سوسائٹیاں جہاں ہندو رہتے ہیں، وہاں پانی بھی ہے اور سیوریج کا مناسب نطام بھی اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلتی ہے۔ان تمام مشکلات کے باوجود جوہا پورہ کے باسی یہیں رہنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ انہیں ہر روز مسلمان ہونے کا احساس دلاتا ہے ، یہں کے لوگ بھی واپس ہندووٴں کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتے کہ کہیں انہیں دوبارہ اپنے پیاروں کے لاشے نہ اٹھانے پڑ جائیں۔

متعلقہ عنوان :