ملک میں عدالتیں موجود ہیں جہاں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق غصب ہوں گے ان پر ایکشن لیا جائے گا‘ جسٹس جواد ایس خواجہ ، آئین و قانون کی پاسداری اور عوام کی آزادی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تمام لاپتہ افراد کے مقدمات میں سچائی تک پہنچنا چاہتے ہیں‘ اگر سیاب سمیت کوئی بھی شخص دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ہے تو پھر قانون کے مطابق کارروائی اور عدالتوں میں چالان پیش ہونا چاہئے‘ پولیس اپنی تحقیقات میں آزاد ہے‘ صحافی برادری اپنی خبروں کے ذرائع نہیں بتاتے،جہاں ضرورت ہو وہاں وہ عدالتوں کی معاونت کرسکتے ہیں‘ سپریم کورٹ میں سیاب لاپتہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس، عدالت کا پولیس کو لاپتہ سیاب کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کا حکم، 3 دسمبر 2008ء کو شائع ہونے والی خبر کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھا نے اور دس روز میں رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

جمعرات 8 مئی 2014 08:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مئی۔2014ء) سپریم کورٹ میں سیاب لاپتہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں عدالتیں موجود ہیں جہاں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق غصب ہوں گے ان پر ایکشن لیا جائے گا‘ آئین و قانون کی پاسداری اور عوام کی آزادی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام لاپتہ افراد کے مقدمات میں سچائی ہو مگر ہم سچائی تک پہنچنا چاہتے ہیں‘ اگر سیاب سمیت کوئی بھی شخص دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ہے تو پھر قانون کے مطابق کارروائی اور عدالتوں میں چالان پیش ہونا چاہئے‘ پولیس اپنی تحقیقات میں آزاد ہے‘ صحافی برادری اپنی خبروں کے ذرائع نہیں بتاتے تاہم جہاں ضرورت ہو وہاں وہ عدالتوں کی معاونت کرسکتے ہیں‘ پولیس تحقیقات کرے اور لاپتہ شخص کے حوالے سے خبر دینے والے صحافیوں سے ملاقات کرکے ذرائع پوچھے جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے جبکہ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ لاپتہ سیاب کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے اور 3 دسمبر 2008ء کو شائع ہونے والی خبر کی بنیاد پر تفتیش کو آگے بڑھایا جائے اور دس روز میں رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے جبکہ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ 28 اپریل کو ڈی چوک میں اسلام آباد پولیس نے لاپتہ افراد کے اہل خانہ‘ بچوں اور خواتین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا‘ خود ان پر بھی تشدد کیا گیا۔

پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کی بجائے الٹا مقدمات بھی ہمارے خلاف ہی درج کئے ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وہ اس واقعہ سے لاعلم ہیں کیونکہ وہ ملک سے باہر تھے بہرحال ان کے خاوند کا مقدمہ پہلے وہ خود سن رہے تھے اب وہ مقدمہ بنچ نمبر 4 میں چل رہا ہے‘ کچھ مقدمات ان کے پاس زیر سماعت ہیں‘ جہاں تک ہوسکے گا ریلیف دیں گے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے عدالتیں موجود ہیں اور ایکشن لیا جائے گا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے سماعت شروع کی تو اس دوران کے پی کے لاء آفیسر‘ آمنہ مسعود جنجوعہ اور پولیس حکام پیش ہوئے۔ ڈی پی او مردان کی ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ 3 دسمبر 2008ء کو پشاور کے تین مقامی اخبارات نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پولیس نے سیاب ولد کمین خان سمیت تین افراد کو دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا جس پر مذکورہ اخبار کے صحافیوں سے رابطہ کیا گیا۔

پشاور میں ایکسپریس ایڈیشن کے رپورٹر نے اپنی خبر کا ذریعہ بتانے سے معذرت کرلی تھی جس پر عدالت نے ایکسپریس کے رپورٹر غلام نبی سے پوچھا کہ وہ کیا کہتے ہیں کہ کیا سٹاف رپورٹ کی خبر اخبار کی اپنی خبر ہوتی ہے تو اس پر مذکورہ صحافی نے بتایا کہ اگر کسی نیوز ایجنسی جیسے ”آ ن لائن“ وغیرہ کی خبر ہو تو تو اس کا باقاعدہ نام درج کیا جاتا ہے جبکہ سٹاف رپورٹ کی کریڈٹ لائن سے پتہ چل رہا ہے کہ اخبار کا اپنا ہی رپورٹر ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ باقی دو اخبارات روزنامہ مشرق اور روزنامہ آج میں بھی خبر چھپی ہے۔ ایک نے بیورو رپورٹ جبکہ بقیہ دونوں اخبارات نے سٹاف رپورٹر کی کریڈٹ لائن سے خبر شائع کی ہے۔ عدالت نے پولیس حکام سے کہا کہ وہ مذکورہ صحافیوں سے رابطہ کرکے ان سے ذرائع معلوم کریں اور تفتیش کو ان کی خبر کے تحت آگے بڑھائیں۔ اگر وہ ذریعہ نہ بتائیں اور معاملہ خفیہ رکھنے کی بات کریں تو پھر عدالت کو بتایا جائے پھر وہ ان صحافیوں کو طلب کرے گی اور ان سے ذرائع کا پتہ کرے گی۔

ذرائع کو خفیہ رکھنے بارے فیصلہ خود عدالت کرے گی۔ پولیس اس حوالے سے تفتیش کرکے رپورٹ دس روز میں عدالت میں پیش کرے۔ مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ اس دوران عدالت نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے ان کے شوہر کے مقدمہ بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بنچ نمبر 4 میں تھا ان کیلئے یہ افسوسناک ہے کہ مقدمات میں پیشرفت نہیں ہورہی اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ عدالتیں مقدمات کی سماعت کررہی ہیں اور ان کے مقدمات بھی مختلف بنچوں میں لگائے جارہے ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے 28 اپریل کو لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور اپنے اوپر ہونے والے پولیس تشدد بارے بھی عدالت کو بتایا تو جسٹس جواد نے کہا کہ پولیس روئیے کیخلاف آپ قانون کے مطابق رجوع کرسکتی ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ ملک میں عدالتیں موجود ہیں۔ جہاں بھی انسانی حقوق غصب ہوں گے یا ان کی خلاف ورزی ہوگی‘ ایکشن لیا جائے گا۔ اس پر آمنہ مسعود نے کہا کہ انہوں نے پولیس تشدد کے حوالے سے درخواست دے رکھی ہے۔