سوات، طالبان کی بے دخلی کے باوجود بے یقینی کی صورتحال برقرار ،تعلیمی اداروں کے باہر سخت سکیورٹی سے طلبہ دباوٴ کا شکار ہیں، رپورٹ

جمعرات 8 مئی 2014 07:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مئی۔2014ء ) وادیِ سوات میں امن کی بحالی اور طالبان کی بے دخلی کو کئی برس بیت گئے ہیں لیکن آج بھی بعض علاقوں میں بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بیشتر تعلیمی اداروں میں آج بھی سکیورٹی کے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات نظر آتے ہیں جس سے ان میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ایک مقامی طالب علم کا کہنا ہے کہ اکثر تعلیمی اداروں کے سامنے قائم بیرکوں اور پھر داخلی گیٹ پر کھڑے مسلح اہلکاروں کو دیکھ کر وہ اکثر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے وہ کسی تعلیمی ادارے میں نہیں کسی بلکہ پولیس سٹیشن میں داخل ہو رہے ہیں۔ایک اور طالب علم کا کہنا تھا کہ ’مسلح اہلکاروں اور مرکزی دیوار پر لگی حفاظتی باڑ کو دیکھ کر یہ تعلیمی ادارہ کم اور پولیس ہیڈ کوارٹر زیادہ لگتا ہے۔

(جاری ہے)

‘مینگورہ میں واقع ’خپل کور ماڈل سکول‘ کے پرنسپل محمد علی نے بتایا کہ ’مسلح گارڈ اور پولیس کی اضافی نفری بچوں کی حفاظت کے لیے ہے کیونکہ جب بچے سکول آتے ہیں تو ان کے والدین بے چینی سے ان کی بحفاظت واپسی کے منتظر ہوتے ہیں اور ان کی سکول میں حفاظت سکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔‘

"مسلح گارڈ اور پولیس کی اضافی نفری بچوں کی حفاظت کے لیے ہیں کیونکہ جب بچے سکول آتے ہیں تو ان کے والدین بے چینی سے ان کی بحفاظت واپسی کے منتظر ہوتے ہیں اور ان کی سکول میں حفاظت سکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔

پرنسپل کے مطابق بچے اب اس کے عادی ہو چکے ہیں کیونکہ شورش سے پہلے بندوق نظر نہیں آتی تھی مگر اب تو یہاں ماحول ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہر جگہ مسلح اہلکار کھڑے نظر آتے ہیں۔ایک نجی تعلیمی ادارے میں پڑھانے والے ایک استاد نے بتایا کہ وہ اور سکول کے دیگر اساتذہ بھی اس چیز کے خلاف ہیں کہ ہر صبح مسلح محافظ سکول آنے والے بچوں کا خیر مقدم کریں۔

مگر ساتھ ہی اس کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ کی طرف سے سخت سکیورٹی کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔‘سوات کی پرائیویٹ سکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر احمد شاہ کے بقول ’سوات چونکہ شورش اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ ہے اس لیے بعض سکولوں میں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔

تاہم سکولوں کے بہتر ماحول کی خاطر یہ نہیں ہونا چاہیے اور بچوں کو آزادانہ ماحول میسر ہونا چاہیے۔‘"بچے گا ڑی میں بہت شور مچاتے ہیں لیکن جب وہ چیک پوسٹ کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو سہم سے جاتے ہیں۔ایک سکول وین کے ڈرائیور نے بتایا کہ شہر سے باہر سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو سکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اگرچہ وہاں سکول وین کی تلاشی نہیں لی جاتی مگر ’بچے ویسے تو گاڑی میں بہت شور مچاتے ہیں لیکن جب وہ چیک پوسٹ کے قریب پہنچتے ہیں تو سہم سے جاتے ہیں۔

‘ماہرینِ نفسیات کے مطابق سکولوں میں سکیورٹی کے ان انتظامات سے بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔سوات کے معروف سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرگوہر علی کا کہنا ہے کہ سکولوں اور دیگر مقامات پر اضافی سکیورٹی بچوں کے لیے ذہنی دباوٴ کا سبب بن رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہنی دباوٴ کی وجہ سے بچوں میں تعلیمی رجحان کم ہو جاتا ہے اور ان کے نفسیاتی مریض بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :