پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیوبے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی کنسلٹنٹ کمپنی لوئیس برجر کو پاکستان ملکی و بین الاقوامی سطح پر بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کر دی

جمعہ 9 مئی 2014 06:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔9مئی۔2014ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیوبے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی شاہراہ کی تعمیر اور اس منصوبے کی کنسلٹنٹ کمپنی لوئیس برجر کو پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کر دی ہے اور کہا ہے کہ بیورو کریسی وزیر اعظم کی آنکھیں اور کان ہوتی ہیں ، جس پٹڑی پر بیورو کریسی چڑھا دیں، حکومتیں وہی کرتی ہیں، وزیر اعظم کو شاید یہ نہیں بتایا کہ چھ لائنوں کا مقصد ساٹھ ہزار گاڑیوں کا روزانہ لوڈ ہے، جب دس ارب کا منصوبہ تھا تو 30 ارب رابطہ سڑکوں پر کیوں خرچ کیے جا رہے ہیں،20 ارب روپے بچائے جائیں یہ بہت بڑا خطرناک اسکینڈل ہو گا،پی اے سی وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر حکام سے پھر بریفنگ لے گی اور اپنی تحقیقات وزیر اعظم کے گوش گزار کرے گی، وزیر اعظم کو 20 ارب روپے کی بچت سے خوشی ہو گی، دکھ نہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کوپبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا سکینڈل سامنے آئے،ملکی خزانے کو نقصان سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، نیو بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ منصوبے کو 30 سال ہو گئے ہیں اور 1 ہزار ارب کا نقصان ہو چکا ہے،33 فیصد اضافہ ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، ہم پر امید ہیں کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں مگر حالات کو دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیئیں، اخراجات کم کئے جائیں اور پلاننگ کے مطابق خرچ ہوں، اس وقت13 ٹریلین قرض لے چکے ہیں، حکومت روزانہ 5 ارب قرضہ لے رہی ہے۔

ایوی ایشن حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نیو بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ 3300 ایکڑ پر محیط ہے،8 ارب کے مزید 1700 ایکڑ زمین خریدی جا رہی ہے، آبادی بڑھنے سے لاہور، کراچی، کوئٹہ ،پشاور کے ایئرپورٹ کی جگہ بھی تنگ ہو چکی ہے، ان پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر پیسہ زیادہ ہے تو زمین خرید لیں، ورنہ یہ ایئرپورٹ پر خرچ کریں۔

رکن کمیٹی سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ ایئرپورٹ پر پانی نہیں ہے اور پلاننگ 50سالوں کی کر رہے ہیں، سسٹم کیسے چلے گا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ امریکہ جیسا ملک بھی 25 سال کی پلاننگ کرتا ہے ہم 50 سال سے کم نہیں کرتے۔ کمیٹی نے ایئرپورٹ پر تیسرے رن وے کی تعمیر کو قرضہ نہ لینے کی شرط پر منظور کیا۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ کوئٹہ، کراچی اور لاہور ایئرپورٹ کے رن وے کو اب مرمت کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ منصوبے کے نقائص دور کئے جائیں، ایتھرو ایئرپورٹ پر سالانہ9 کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں اور وہاں پر صرف دو رن وے ہیں۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ یہ سٹیٹ آف آرٹ ایئرپورٹ ہو گا ، مستقبل میں زمین نہیں ملے گی۔ کمیٹی نے کہا کہ بیورو کریسی وزیر اعظم کی آنکھیں اور کان ہوتی ہیں ، جس پٹڑی پر بیورو کریسی چڑھا دیں، حکومتیں وہی کرتی ہیں، وزیر اعظم کو شاید یہ نہیں بتایا کہ چھ لائنوں کا مقصد ساٹھ ہزار گاڑیوں کا روزانہ لوڈ ہے، جب دس ارب کا منصوبہ تھا تو 30 ارب رابطہ سڑکوں پر کیوں خرچ کیے جا رہے ہیں،20 ارب روپے بچائے جائیں یہ بہت بڑا خطرناک اسکینڈل ہو گا،پی اے سی وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر حکام سے پھر بریفنگ لے گی اور اپنی تحقیقات وزیر اعظم کے گوش گزار کرے گی، وزیر اعظم کو 20 ارب روپے کی بچت سے خوشی ہو گی، دکھ نہیں۔

تاریخ میں یہ پہلی بار ہو گا کہ بڑی بے قاعدگی اور بے ضابطگی کا پی اے سی نے قبل از وقت نوٹس لیا اور بار بار آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ نہ کریں۔ کمیٹی نے کہا کہ 20 سالوں میں موٹر وے پر 60 ہزار گاڑیاں روزانہ نہیں آ سکیں اب جا کر 22ہزار گاڑیوں تک پہنچے ہیں۔ پی ایم نے اگر منظوری دی ہے تو بیورو کریسی کی بریفنگ سن کر دی ہو گی۔ سارا معاملہ زمینوں کا لگ رہا ہے، زمین مالکان کے نام سامنے آئے تو خطرناک سکینڈل سامنے آئے گا۔

میاں عبدالمنان نے کہا کہ جس کنسلٹنٹ نے پلاننگ کی تھی اس کے خلاف مقدمہ درج کروایا جائے، جس پر سیکرٹری ایوی ایشن نے بتایا کہ ایئرپورٹ سے ملحقہ سوسائٹیوں میں بھی نہیں ہے، وہاں پر بارشوں کا پانی ذخیرہ کر کے ایئرپورٹ تعمیر کیا ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2007ء میں آصف علی ایسوسی ایٹ کو 20 لاکھ روپے روڈ نیٹ ورک کے لئے دیئے گئے جبکہ 2011ء میں ایک اور کنسلٹنسی کے لئے 32 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔

جس پر چیئرمین این ایچ اے شاہد تارڑ اور آڈٹ حکام کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی، جس کا کمیٹی نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کی توہین کا الزام بھی لگ سکتا ہے، آپس کی لڑائیاں یہاں نہ لڑیں، یہ پی اے سی ہے ،چہرے کی رونق دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ افسران کو کتنا اچھا لگا ہے اور کتنا برا۔ آڈٹ حکام پی اے سی کا حصہ ہیں اور پی اے سی کو گائیڈ کرتے ہیں،20 ارب بچ گئے تو کیا یہ ہماری جیب میں جائیں گے، جس نے سروے کیا اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔

کمیٹی کی سرزنش پر چیئرمین این ایچ اے نے معذرت کی اور تسلیم کیا کہ رابطہ سڑکوں کے معاملے پر گزشتہ چھ ماہ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کمیٹی نے نیسپاک کے پوائنٹ کو تسلیم کرتے ہوئے رابطہ سڑکوں کی چوڑائی کو 600 کی بجائے 100 میٹر رکھنے کی ہدایت کی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 600 میٹر زمین خرید کر تجارتی سر گرمیاں اس وقت شروع کی جائیں جب پیسہ ہو،100 ارب خرچ ہو چکے ہیں ، ہمارا مقصد ہے کہ روڈ بن جائے، کیا اس کی منظوری ایکنیک دے چکی ہے ، جس پر حکام نے تسلیم کیا کہ ابھی اس معاملے کا پی سی ون آیا ہے اور ابھی یہ معاملہ ایکنیک کے پاس گیا ہی نہیں ہے۔

جس پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ مارچ 2015 تک ایئرپورٹ کی سڑکیں مکمل نہ ہوئیں تو نقصان پلاننگ ڈویژن اور سول ایوی ایشن سے وصول کیا جائے گا۔ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ منصوبے تین سال تک مکمل ہو ۔ ایئرپورٹ بن جائے گا اور تین سال بعد وہاں پر مرمت کا بھوت آ جائے گا۔ جس پر دو ارب روپے مزید خرچ کئے جائیں گے۔ جو ہدایات کی خلاف ورزی کرے گا وہ خود ذمہ دارہو گا۔

متعلقہ عنوان :