پاکستانی فوج کے تجربے میں ہاتھ کھوئے تھے، ابو حمزہ،نیو یارک کی عدالت میں دہشت گردی و دیگر الزامات کا سامنا کرنے والے ابو حمزہ المصری نے سماعت کے دوران پاکستان، افغانستان، بوسنیا اور الجزائر میں سرگرمیوں بارے بتایا

ہفتہ 10 مئی 2014 07:25

نیو یارک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔10مئی۔2014ء)نیو یارک کی ایک عدالت میں دہشت گردی و دیگر الزامات کا سامنا کرنے والے ابو حمزہ المصری نے مقدمے کے سماعت کے دوران پاکستان، افغانستان، بوسنیا اور الجزائر میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔ مسلمان عالم مصطفی کامل مصطفی، جسے ابو حمزہ المصری کے نام سے جانا جاتا ہے، کے خلاف امریکی شہر نیو یارک کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

جرمن ریڈیو رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز مقدمے کے سماعت کے دوران ابو حمزہ نے اپنے خلاف لگائے جانے والے تمام گیارہ الزامات کو مسترد کر دیا۔ابو حمزہ نے عدالت کو بتایا کہ سن 1993 میں پاکستان کے شہر لاہور میں ملکی فوج کے ایک تجربے کے دوران اْس کے دونوں ہاتھ ضائع ہو گئے تھے۔ بم دھماکے میں جو آلہ استعمال کیا گیا تھا، اْسے ایک ایسے شخص نے تیار کیا تھا، جس کا نام اْس عرب باشندے کے نام سے مشابہت رکھتا ہے، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اْس نے 2000ء اور 2001ء میں افغانستان میں القاعدہ کے جنگجووٴں کو تربیت فراہم کی تھی۔

(جاری ہے)

مصطفی کامل مصطفی یا ابو حمزہ نے بتایا کہ حادثے کے بعد اْسے ایک ملٹری ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ قریب ایک ماہ تک زیر علاج رہا۔ اْس نے بتایا کہ پاکستانی فوج نے اْسے اْس وقت پیشکش کی کہ اگر وہ اْس واقعے کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لے، تو کسی اور عرب مجاہد کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ابو حمزہ 1992ء میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوا تھا۔

وہ افغان جنگ کے بعد خطے میں بحالی کے کاموں میں شرکت کے ارادے سے پاکستان گیا تھا۔ اْس نے بتایا کہ اْسے کافی حیرانی تھی کہ کس طرح لاہور کے ایک علاقے میں دو مکانات کے درمیان خالی زمین پر دھماکا خیز مواد کی آزمائش کا عمل جاری تھا۔ اْس نے مزید کہا، ”میں کافی حیرت زدہ تھا کہ پڑوسی شکایت کیوں نہیں کرتے یا پولیس کو کیوں نہیں بلاتے۔ وہ سب فوج گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

“ابو حمزہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران مزید بتایا کہ جب مالی امداد مہیا کرنے والے سعودیوں نے کئی بڑے منصوبوں کی مالی معاونت ترک کر دی تو اْس نے پاکستانی فوج کے لیے ملازمت کرنے کے معاملے میں چند عرب باشندوں کی مدد کی تھی۔ اْس کے بقول پاکستانی فوج کو ’دیگر مسلح تنازعات‘ کے لیے ’حکمت عملی سے متعلق صلاحیتوں اور دھماکا خیز مواد کے ساتھ تجربے‘ والے افراد درکار تھے۔

نیو یارک کی ایک عدالت میں دہشت گردی و دیگر الزامات کا سامنا کرنے والے المصری نے مقدمے کی دوسری سماعت کے دوران پاکستان، افغانستان، بوسنیا اور الجزائر میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔ابو حمزہ کو 1998ء میں یمن میں سولہ مغربی باشندوں کے اغوا، 1999ء میں اوریگن میں جہادی کیمپ شروع کرنے کی کوشش، القاعدہ کی معاونت، طالبان کی مدد کرنے اور دہشت گردی کی تربیت کے لیے نئے لوگوں کو افغانستان بھیجنے کے الزامات کا سامنا ہے۔