نئے سعودی حکمران کے سامنے طوفانی حالات کھڑے ہیں، جرمن میڈیا، اندرونی سطح پر اصلاحات میں تعطل اور خارجہ پالیسیوں میں ناکامی سے ’وہابی بادشاہت‘ کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے، سعودی قیادت کو اندرونی مسائل اور بیرونی تنازعات کا سامنا ہے،شاہی خاندان میں ایک حقیقی نسل کی تبدیلی ابھی آئے گی اور اس میں ابھی چند سال لگ سکتے ہیں، تبصرہ

اتوار 25 جنوری 2015 04:58

برلن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25جنوری۔2015ء ) غیر ملکی میڈیا نے شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد سعودی عرب کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے حکمران کے سامنے طوفانی حالات کھڑے ہیں، اندرونی سطح پر اصلاحات میں تعطل اور خارجہ پالیسیوں میں ناکامی سے ’وہابی بادشاہت‘ کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے۔ جرمن میڈٰیا کے ایک سینئر تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ان کے جانشین کا نام سامنے آنے میں ذرہ بھی دیر نہیں لگائی گئی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ عبداللہ ایک عرصے سے علیل تھے اور سعودی شاہی خاندان کے پاس ان کا جانشین مقرر کرنے کے لیے کافی وقت تھا۔

تاہم اقتدار کی ہموار منتقلی اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتی کہ سعودی قیادت کو اور شاہ سلمان کو اندرونی مسائل اور بیرونی تنازعات کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

شاہ سلمان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ڈیمینشیا یا پارکنسنز کی بیماری کے شکار ہیں اور اپنے پیشرو کی طرح آزاد خیال اصلاحات پسند‘ ہیں۔ ان کی عمر تقریبا 79 برس ہے اور اسی وجہ سے انہیں ’بہترین عبوری بادشاہ‘ کہا جا سکتا ہے۔

سعودی شاہی خاندان میں ایک حقیقی نسل کی تبدیلی ابھی آئے گی اور اس میں ابھی چند سال لگ سکتے ہیں۔ آلِ سعود کے خاندان کے سابق بادشاہوں کے برعکس نئی قیادت مخمصے کی شکار ہے۔ سیکولر اشرافیہ سماجی اور شہری اصلاحات نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ قدامت پرست معاشرے پر کنٹرول اور خالص وہابی نظریات کا تسلسل چاہتی ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس چیزوں میں ردو بدل کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے۔

وہابی بنیاد پرستی اقتدار کے ڈھانچے کا ایک مرکزی حصہ ہیں لیکن شاہی خاندان کے لیے صرف وہابیت ہی مرکزی چیز نہیں ہے۔ اصل میں شاہی خاندان کے لیے یہ ایک ریاستی نظریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہی خاندان کی اپنی زندگیوں میں چاہے نظر آئے نہ آئے لیکن دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں سعودی عرب اسی نظریے کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ 2011ء میں عرب دنیا میں پیدا ہونے والی سیاسی بیداری کی تحریک ’عرب اسپرنگ‘ سعودی عرب کے لیے ایک بڑا چلینج تھیں۔

سعودی عرب کو خطرہ تھا کہ یہ بیداری کی تحریک انٹرنیٹ کے ذریعے ملک کے نوجوانوں اور ناراض طبقے میں پھیل سکتا ہے۔ اسی خوف کے تحت سعودی عرب نے انقلابی تحریک کے خلاف کھڑا ہو گیا اور مصر میں محمد مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کا ساتھ دیا۔ اس سے قبل سعودی عرب نے بحرین میں مظاہرین کو شکست دینے کے لیے فوجی مداخلت سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔

دوسری جانب علاقائی استحکام کی سعودی پالیسی ناکام خارجہ پالیسی میں تبدیل ہوئی۔ شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کا ظہور خطے میں سعودی عرب کے کم ہوتے ہوئے اثرو رسوخ کی طرف اشارہ ہے۔ آئی ایس کے جہادی سعودی عرب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور ان کے خلاف سعودی عرب نے مغربی ممالک کی مدد حاصل کی ہے۔شام میں سعودی عرب کی ناکام پالیسی بھی قابل تشویش ہے۔

شامی اپوزیشن نے ویسے نتائج مہیا نہیں کیے، جیسے سعودی عرب کی خواہش تھی۔ خطے میں ایران کی حامی طاقتوں کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور اس کے علاقائی طاقت ترکی کے ساتھ بھی تعلقات کمزور ہوئے ہیں۔دوسری جانب عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے نوجوانوں میں شہری حقوق اور حکومت میں شرکت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بے چینی سے بچنے کے لیے حکومت کے لیے کافی اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔تاہم یہ بھی واضح ہے کہ نئے سعودی شاہ کے ارد گرد پائی جانے رالی اشرافیہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ ریاستی اور سماجی سطح پر مطلوبہ اصلاحات کر سکے اور اگر اصلاحات نہ کی گئی تو سعودی عرب مستقبل میں عدم استحکام کا گڑھ بھی بن سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :