دہشت گردی صوبائی یا قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے ، شاہ محمود قریشی،دہشت گردی کی جنگ میں کے پی کے نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے،صرف کے پی کے کی حد تک الیکشن میں حصہ لیں گے باقی صوبوں اور مرکز میں ہمارے ممبر سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے،دھرنا ختم ہوا ہے لیکن اپنے مئوقف پرابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں ،سانحہ پشاور پر قومی یکجہتی کیلئے وقفہ دیا ہے ہم نے ریاست کے مفاد کیلئے سیاست کی قربانی دی ہے لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے دھرنا چھوڑا تھا،سانحہ شکار پور و پشاور کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے وہ اپنی ناکامیاں دوسروں کے کھاتے میں نہ ڈالے،خود مختار جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں شفاف الیکشن اور انتخابی اصلاحات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 6 فروری 2015 09:14

جہانیاں (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6فروری۔2015ء) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دہشت گردی صوبائی یا قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے ،دہشت گردی کی جنگ میں کے پی کے نے بہت بھاری قیمت ادا کی ہے،صرف کے پی کے کی حد تک الیکشن میں حصہ لیں گے باقی صوبوں اور مرکز میں ہمارے ممبر ووٹ سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے، وزیر اعظم سانحہ پشاور پر کے پی کے کے دورے پر پہنچ گئے لیکن شکار پور امام بارگاہ دھماکے پر سندھ کیوں نہ گئے،دھرنا ختم ہوا ہے لیکن اپنے مئوقف پرابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں ،سانحہ پشاور پر قومی یکجہتی کیلئے وقفہ دیا ہے ہم نے ریاست کے مفاد کیلئے سیاست کی قربانی دی ہے لیکن ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے دھرنا چھوڑا تھا،سانحہ شکار پور و پشاور کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے وہ اپنی ناکامیاں دوسروں کے کھاتے میں نہ ڈالے،خود مختار جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے نتیجے میں شفاف الیکشن اور انتخابی اصلاحات سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے ان خیالات کا اظہار پی ٹی آئی کے رہنما و سابق ممبر قومی اسمبلی جہانیاں ملک غلام مرتضیٰ کے بھائی ملک شیرن خان کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ 2013ء کے الیکشن کی شفاف تحقیقات چاہتے ہیں یہ کسی کا ذاتی یا جماعت کا مسئلہ نہیں ہے یہ ایک قومی مسئلہ ہے جو بھی جمہوریت کا دعویدار یا علمبردار ہے وہ شفاف انتخابات کے حق میں ہوگا اور شفاف الیکن کے لیے خود مختار الیکشن کمیشن کا معرض وجود میں آنا اور انتخابی اصلاحات ہوناضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اپنی تحریک میں اس حد تک تو کامیاب ہو چکی ہے کہ انتخابی اصلاحات پرقومی اتفاق رائے ہو چکا ہے اور ایک کمیٹی تشکیل پا چکی ہے جو موجودہ قوانین کو دیکھ کر اس میں اصلاحات تجویز کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن بھی بن جائے جو کہ بااختیار ہوجو کہ مقررہ وقت میں قوم کو بتائے کہ 2013ء کے الیکشن میں کیا ہوا ہم اس کے نتائج قبول کر لیں گے چاہے وہ ہماری توقعات کے برعکس ہوں اور اس تحقیقات کی بنیاد پر آنے والے الیکشن ہوں شفاف الیکشن اور انتخابی اصلاحات میں کسی کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت باختیار جوڈیشل کمیشن مقرر کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے حکومت چاہتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن باختیار نہ ہو ایسا کمیشن جو کہ صرف کاروائی ڈالے اور کام کوئی نہ ہو تحریک انصاف کو ایسا جوڈیشل کمیشن قبول نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے پی کے کی حد تک سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے گی لیکن مرکزی اور باقی صوبوں میں ہماری جماعت سینیٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لے گی۔

انہوں نے کہا کہ نئی فرانزک رپورٹ نے تمام انتخابات کی قلعی کھول دی ہے اگر این اے 122 اور باقی حلقوں کی یہ کیفیت ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کس طرح کروائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے دھرنا چھوڑا تھا ہم نے ریاست کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے سیاست کو قربان کیا اور اپنے دھرنے کو اٹھایا ہم نے ریاست کو ترجیح دی سیاست کو اہمیت نہ دی،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا مئوقف تبدیل ہو گیا ہے ہمارا اب بھی وہی مئوقف ہے اگر ہمیں کوئی مناسب راستہ نہ ملا تو ہم وہی راستہ دوبارہ اپنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو سیاسی جماعتیں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتی رہی ہیں وہ اب حکومت کی حمایت کیوں کررہی ہیں ان سیاسی حماعتوں کی حکومت سے انڈر سٹینڈنگ ہے اسی مک مکا کی سیاست کو تبدیل کرنے کیلئے تحریک انصاف میدان میں آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت جس قسم کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینا چاہتی ہے اس سے بہتر ہے کہ کمیشن نہ ہی بنے،وفاقی حکومت اپنی ناکامیاں دوسروں کے کندھوں پر نہ ڈالے ہم ملٹری کورٹس کے حامی نہیں تھے لیکن قومی یکجہتی اور دہشت گردی کے غیر معمولی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے غیر معمولی قدم کو اپنا لیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں سب سے زیادہ نقصان کے پی کا ہوا ہے سابقہ دس برسوں سے سب سے زیادہ خود کش بم دھماکے کے پی کے میں ہوئے سب سے زیادہ سکیورٹی اہلکار کے پی کے میں شہید ہوئے۔انہوں نے کہ جب پشاور سکول پر حملہ ہوتا ہے تو وزیر اعظم چند گھنٹوں میں کے پی کے پہنچ جاتے ہیں پورا فوکس پورا میڈیا وہاں پہنچ جاتا ہے لیکن سندھ میں شکار پور امام بارگاہ میں حملہ ہونے کے بعد وزیر اعظم کراچی موجود ہونے کے باوجود شکار پور میں متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کیوں نہ گئے کیا شکار پور کی اموات سانحہ پشاور کی اموات سے کسی طرح کم ہیں وہاں کے شہری پاکستانی نہیں ہیں سوال اٹھتا ہے وزیر اعظم شکار پور کیوں نہیں گئے پشاور اس لیے گئے کہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اسے نیچا دکھانا تھا پوائنٹ سکورنگ کرنا تھی جبکہ سندھ میں حکومت کے ساتھ مک مکا ہے۔