ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق یکطرفہ تقریر پر ہونے والی تنقید کے اثرات کم کرنے کیلئے اسرائیلی حکام کا وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی اگلے ماہ امریکی کانگریس میں تقریر میں تبدیلیوں پرغور

بدھ 11 فروری 2015 09:17

مقبوضہ بیت المقدس(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2015ء)اسرائیلی حکام وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی اگلے ماہ امریکی کانگریس میں کی جانے والی تقریر میں ایسی تبدیلیاں کا سوچ رہے ہیں جن سے ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق یکطرفہ تقریر پر ہونے والی تنقید کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیتن یاہو اسرائیلی انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل 3 مارچ کو امریکی کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خطاب کریں گے۔

انہیں کانگریس کے ریپلکن اسپیکر جان بوہنر نے اس خطاب کے لئے دعوت دی تھی۔بوہنر کی اس دعوت کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا دونوں ممالک میں بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایران مخالف نیتن یاہو ریپبلکن رہنماؤں کے ساتھ مل کر امریکی صدر براک اوباما کی ایران سے متعلق پالیسی پر تنقید کی جا سکے۔

(جاری ہے)

اس اقدام سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کے ریپلکن رہنماؤں سے سیاسی تعلقات ریاست اسرائیل اور امریکا کے سفارتی تعلقات سے زیادہ اہم ہیں اور انہیں اس خطاب سے اپنی انتخابی مہم میں بھی بہت مدد ملے گی۔

اسی وجہ سے اسرائیلی حکام نیتن یاہو کے نشریاتی خطاب کے مقابلے بند کمرے کے اجلاس میں خطاب کا سوچ رہے ہیں تاکہ اس کی شدت کم کی جا سکے۔بوہنر کے ترجمان مائیکل سٹیل کا کہنا ہے کہ یہ تقریر مقررہ تاریخ پر ہی کی جائے گی مگر انہوں نے اسرائیلی حکام کی جانب سے تقریر میں تبدیلی کی اطلاعات پر تبصرے سے انکار کر دیا۔اسرائیلی حکام کے سامنے ایک اور آپشن یہ ہے کہ نیتن یاہو یہ تقریر کانگریس کی بجائے واشنگٹن میں ہونے والی امریکا.اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی آئیپک کے سالانہ اجلاس میں کریں۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے ایک ذرائع کا کہنا ہے "یہ معاملہ ایک ہفتے سے زیر بحث ہے۔ نیتن یاہو لیکوڈ پارٹی سے رابطے میں ہیں۔ کچھ حلقوں کی رائے میں انہیں اس تقریر سے گریز کرنا چاہئے جبکہ دیگر چند حلقے ان کی اس تقریر کے حق میں ہیں۔"مگر نیتن یاہو نے پیر کی شام کو روس کے اسرائیلی ووٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے اس ڈیل پر اپنے اعتراضات اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔

اسرائیلی فوجی ریڈیو کے ایک سروے میں 47 فیصد شہریوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ نیتن یاہو کو یہ خطاب منسوخ کر دینا چاہئیے ہے جبکہ 34 فیصد کے خیال میں انہیں یہ تقریر کرنی چاہئیے۔امریکی صدر براک اوباما نے صدارتی پروٹوکول کا پاس کرتے ہوئے انتخابات سے قبل نیتن یاہو سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسرائیلی نائب وزیر خارجہ کے مطابق نیتن یاہو کو تقریر سے متعلق گمراہ کیا گیا تھا کہ اس تقریر کے لئے دونوں امریکی سیاسی جماعتیں تیار ہیں مگر ڈیموکریٹ پوری طرح تیار نہ تھے۔

اس 'گمراہی' کے نتیجے میں نیتن یاہو کے لئے تقریر کو منسوخ کرنا آسان بن گیا ہو گا لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر وہ ابھی تقریر منسوخ کرتے ہیں تو یہ ان کے پکے ووٹرز کے سامنے انہیں کمزور امیدوار کے طور پر ظاہر کرے گا۔ اس کے علاوہ انہیں انتخابات سے قبل ایران کے سخت حریف کے طور پر سامنے آنے کا موقع چاہئیے ہے کیونکہ اسرائیل میں قومی سلامتی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔