افغانستان میں خواتین سائیکل سواروں کی پہلی ٹیم ،مریم مرجان مختلف سکولوں میں جا کر ایسی لڑکیوں کو تلاش کرتی ہیں جو ٹیم میں شامل ہونا چاہیں۔تاہم طالبان حکومت کے 2001 میں اختتام پزیر ہونے کے باوجود آج بھی انہیں نئے کھلاڑیوں کو تلاش کرنے میں کافی دقت پیش آتی ہے

بدھ 11 فروری 2015 08:28

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2015ء)شاید دنیا کی سب سے غیر متوقع کھلاڑی ٹیم افغانستان کی خواتین سائیکل سواروں کی ہے جو کابل کے شمال میں واقع میدانی علاقے میں غیر استعمال شدہ سڑکوں پر ہفتے میں تین دن مشق کرتی ہیں۔یہ خواتین اپنی سائیکلیں اٹھا کر افغانستان کے واحد پیشہ ور سائیکلنگ کھلاڑی عبدالصادق کے مکان سے نکل کر ایک کچی گلی میں کھلی نالیوں کے پاس سے ہوتی ہوئی گزرتی ہیں۔

صادق نے اس کام کی ابتدا اپنی بیٹی کی تربیت سے کی اور جب اس نے بیرونِ ملک جا کر اپنی تربیت مکمل کر لی تو انہوں نے اس سائیکلنگ ٹیم کی تشکیل دی۔ان کی نمائندہ مریم مرجان مختلف سکولوں میں جا کر ایسی لڑکیوں کو تلاش کرتی ہیں جو ٹیم میں شامل ہونا چاہیں۔تاہم طالبان حکومت کے 2001 میں اختتام پزیر ہونے کے باوجود آج بھی انہیں نئے کھلاڑیوں کو تلاش کرنے میں کافی دقت پیش آتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اس کی وجہ لڑکیوں میں شوق کی کمی نہیں۔در حقیقت یہ کھیل ِاس ملک میں رائج ان روایات کو توڑتا ہے جہاں معاشرے میں اکثر خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت تک نہیں ہوتی۔مریم مرجان مختلف سکولوں میں جا کر ایسی لڑکیوں کو تلاش کرتی ہیں جو ٹیم میں شامل ہونا چاہیں اافغان خاندان کافی بڑے ہوتے ہیں۔ مریم مرجان کہتی ہیں کہ: ’اگر لڑکیوں کو ان کا والد نہ بھی روکے تو کوئی بھائی یا چچا روک دیتا ہے۔

انہیں ہر وقت کسے نہ کسی کو رضامند کرنا پڑتا ہے‘۔ٹیم میں دو بہنیں، اٹھارہ سالہ معصومہ اور سترہ سالہ ذراب بھی شامل ہیں۔ ان کے والد اور بھائی ان کی ٹیم میں شمولیت پر راضی ہیں لیکن ذراب کا کہنا ہے کہ ان کے چچا ان کے والد سے شکایات کرتے ہیں۔ذراب کہتی ہیں:’وہ ہمارے سامنے آ کر کبھی نہیں پوچھیں گے کہ ہم سائیکل کیوں چلاتی ہیں لیکن ہمارے والد کو وہ برا بھلا کہتے ہیں۔

‘خواتین اپنی سائیکلیں اٹھا کر افغانستان کے واحد پیشہ ور سائیکلنگ کھلاڑی عبدل صادق کے مکان سے نکل کر ایک کچی گلی میں کھلی نالیوں کے پاس سے ہوتی ہوئی گزرتی ہیں ٹیم کے بانی اور ہیڈ کوچ صادق کو اکثر دھمکیاں ملتی رہتی ہیں اور کچھ ہی عرصہ پہلے انہیں زد و کوب بھی کیا گیا۔لیکن ان لڑکیوں کو ایک اور دن کی مشق پر جانے کے لیے عبدالصادق کی گاڑی پر اپنی سائیکلیں لوڈ کرتے ہوئے دیکھ کر گلی میں کھڑے مردوں کو کہنا تھا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔

یہ کھیل ِاس ملک میں رائج ان روایات کو توڑتا ہے جہاں معاشرے میں اکثر خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت تک نہیں ہوتیان کی سائیکلیں اس معیار کی نہیں جو اس کھیل کے عالمی کھلاڑی استعمال کرتے ہیں اور صادق مانتے ہیں کہ ابھی ان کی ٹیم عالمی مقابلوں میں حصہ لینے سے بہت دور ہے۔تاہم ان کی ٹیم نے علاقائی مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور بنگلادیش اور پاکستان کے خلاف جیتے بھی ہیں۔

ان کی سائیکلیں اس معیار کی نہیں جو اس کھیل کے عالمی کھلاڑی استعمال کرتے ہیں اور عبدل صادق مانتے ہیں کہ ابھی ان کی ٹیم عالمی مقابلوں میں حصہ لینے سے بہت دور ہیعبدل صادق کو درپیش ایک بڑا مسئلہ کھلاڑیوں کو ٹیم میں دیر تک رکھنے کا بھی ہے کیونکہ افغانستان میں زیادہ تر لوگوں کی شادی بیس سال کی عمر تک ہو جاتی ہے اور پھر کھلاڑی ٹیم کو چھوڑ دیتے ہیں۔

تاہم نئے کھلاڑی مشقوں کے دوران ٹیم میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور لہراتے، ڈانواں ڈول ہوتے سائیکل چلانا سیکھتے ہیں۔ٹیم کی نئی کھلاڑی سولہ سالہ ڑیلہ کہتی ہیں:’ہم اس لیے سائیکل چلانا چاہتی ہیں کہ ایک دن ہم ہیرو بن سکیں‘۔رواں سال خشک سردی کے موسم میں ان کی مشقیں بغیر کسی تعطل کے جاری ہیں اور موسمِ بہار میں یہ لڑکیاں پہاڑوں پر مشق کے لیے جائیں گی۔

ٹیم کی نائب کوچ مریم مرجان کہتی ہیں:’ہمار ماننا ہے کہ خواتین کو گھر میں نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔ انہیں باہر نکل کر کھیلوں میں حصہ لینا چاہیے۔‘ان کی ٹیم نے علاقائی مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور بنگلادیش اور پاکستان کے خلاف جیتے بھی ہیں اور اٹھارہ سالہ زینب کی خواہش ہے کہ وہ گلی میں بغیر کسے مزاحمت کے اکیلی سائیکل چلا سکیں۔زینب کا کہنا ہے:’میری خواہش ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ ایک دن لڑکیوں کو بغیر کوچ یا کسی اور کے تنہا اور کسی مسئلے کے بغیر سڑکوں پر سائیکل چلانے کی اجازت ہو گی۔‘

متعلقہ عنوان :