ہندوستانی ملوں کے فضلے سے پاکستان کو شدید خطرات ،شہریوں کی صحت، زرعی نقصان کے علاوہ ایوی ایشن انڈسڑی کو 2 ارب روپے سالانہ کا نقصان ،موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہ ملکوں میں پاکستان 10ویں نمبرپر میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ

پیر 16 فروری 2015 09:06

کراچی( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 16فروری۔2015ء ) ہندوستان کی کوئلے سے چلنے والی اسٹیل ملز سے پیدا ہونے والی زہریلی دھند سے پاکستانی شہریوں کی صحت، زرعی نقصان کے علاوہ ملک کی ایوی ایشن انڈسڑی کو 2 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے نائب ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا گذشتہ روز ہونے والی ایک پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ گذشتہ سال انٹر گورمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی پیش کی گئی رپورٹ میں پاکستان میں آئندہ سالوں میں موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ملک بھر کے سائنسدانوں نے اپنی اپنی تفصیلی معلومات پیش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں 10ویں نمبر ہے جو موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہونگے جبکہ کسی بھی قسم کی تبدیلی ہم پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

سمندری پانی کے بڑھاوں کے حوالے سے غلام رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساحل گذشتہ سالوں کے قابلے میں سمندری طوفانوں کی زد میں ہیں اور اس خطرے میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود 8 ہزار 123 گلیشیئرز میں سے 8 ہزار گلیشیئرز میں اضافہ تاہم باقی گلیشیئرز پگل رہے ہیں اور سیاچن کا گلیشیئرز دنیا میں سب سے زیادہ جلدی پگلنے والا گلیشیئرز ہے۔

غلام رسول کا کہنا تھا کہ مون سون کے وقت میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستانی دریاوں میں سیلاب میں اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان کے علاقے خشک سالی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مون سون میں تبدیلی سے کاشتکاری بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے دو ہی ڈیم موجود ہیں منگلہ اور تربیلہ، ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی 35 فیصد تک کم ہوچکی ہے۔چھوٹے ڈیموں کی حمایت کرتے ہوئے غلام رسول کا کہنا تھا کہ 'یہ اب ہم پر ہے کہ ہم پانی کو ذخیرہ کرے یا سیلابوں کی صورت میں اپنی زمینوں اور لوگوں کو نقصان برداشت کرنے پر مجبور کریں۔

متعلقہ عنوان :