سپریم کورٹ میں سندھ پولیس کی جانب سے خریدی جانے والی بلٹ پروف گاڑیوں اور دیگر اسلحے کی خریداری میں عرفان قادر کو روسٹم چھوڑنا پڑا ، بدعنوانی کا معاملہ ہے سوالات تو ہوں گے ، اور سوالات کے جوابات تو دینا پڑینگے ۔ عدالت کا ڈیکورم ہوتا ہے جس کی پابندی سب پر لازم ہے آپ کے سوالات کرنا عدالت کا کام ہے اور جواب دینا آپ کا کام ہے ،جسٹس اعجاز چوہدری ،کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی

جمعرات 12 مارچ 2015 09:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ میں سندھ پولیس کی جانب سے خریدی جانے والی بلٹ پروف گاڑیوں اور دیگر اسلحے کی خریداری میں عرفان قادر کو روسٹم چھوڑنا پڑا ۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بدعنوانی کا معاملہ ہے سوالات تو ہوں گے ، اور سوالات کے جوابات تو دینا پڑینگے ۔ عدالت کا ڈیکورم ہوتا ہے جس کی پابندی سب پر لازم ہے آپ کے سوالات کرنا عدالت کا کام ہے اور جواب دینا آپ کا کام ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عوام کی جیب سے ایک ارب 23 کروڑ روپے نکالے گئے یہ حساس اور سنجیدہ معاملہ ہے اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے جبکہ وفاقی حکومت نے پولیس کی جانب سے خریداری کے مسودے کو قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے عدالت کو بتایا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی اجازت وزارت داخلہ کو ہے پولیس کو نہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ جواب بدھ کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو پیش کیا ہے ۔ سماعت شروع ہوئی تو اس دوران سندھ پولیس کے وکیل عرفان قادر پر جب عدالت نے مختلف سوالات کی بوچھاڑ کی تو اس پر انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے مجھے تمام تر سوالات بتلا دیئے جائیں تاکہ وہ اس کا تسلی بخش جواب دے سکیں اس پر عدالت نے کہا ہ سوالات تو ہوں گے اور اس کے جوابات بھی دینا پڑینگے جسٹس اعجاز چوہدری اور عرفان قادر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر آپ میرے دلائل نہیں سننا چاہتے تو میں بیٹھ جاتا ہوں اس پر وہ بیٹھ گئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی